پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا خواتین کی معاشرتی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی کارناموں کا دن منا رہی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں ان کے خلاف پر تشدد مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
2015 سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے جس سے صوبے میں صنفی کرائم بڑھ گیاہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی طویل فہرست میں عصمت دری سرفہرست جرم ہے۔ پولیس سے ملنے والے ڈیٹاکے مطابق 2015 سے 2019 کے دوران جنسی زیادتی کے900 واقعات ہوئے۔
دستاویزکے مطابق صوبے میں گذشتہ 5 سال کے دوران عصمت دری کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہوا۔ لیکن کمزور ثبوت اور DNA پرکھنے کی سہولت کے فقدان کی بناپرسزاکی شرح کم رہی۔ایٖڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن فیروزشاہ کے مطابق کچھ کیسزکمزور تفتیش کے باعث بندکردئے گئے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ صوبے میں DNAکی سہولت نہ ہونے پرہم کیسزکی تفتیش نہیں کر سکتے۔
فیروز شاہ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن شبینہ ڈیازنے کہاکہ بریت کی بنیادی وجہ DNAکی سہولت کمی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیمپل پنجاب بھیجناپڑتے ہیں اوررزلٹ ملنے تک کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران خواتین کوجسمانی اور نفسیاتی طور پر پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ آئی جی خیبرپختونخواکوجمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق صوبائی پولیس اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ2015سے پانچ سال میں عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
5 سال قبل ریپ کے 135 کیس ریکارڈ کئے گئے۔اگلے سال بڑھ کر 2016 میں 163 ہو گئے۔ 2017 میں کچھ کمی دیکھی گئی۔لیکن 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر216 ہوگئی جبکہ 2019 میں عصمت دری کے 216 کیس رپورٹ ہوئے۔ ایڈیشنل آئی جی نے بتایاکہ خیبرپی کے میں خواتین کو ٹارگٹ کرنا، قتل کرنا جیسے جرائم شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں 1,100خواتین قتل کی گئیں۔250کوغیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 344 گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ دیہاتوں میں معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے زیادہ ترکیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔