ہر مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی امنگ و آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ جن کلمات کو سن کر دنیا میں آموجود ہوتاہے اور پھر بچپن و لڑکپن اور جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے وقت شب و روز می متعدد بار اذان کے کلمات سنتاہے اور ان کلمات کے ساتھ رب العزت کے حضور پانچ وقت کے فرض نمازوں میں سربسجود ہوتاہے۔ماں کی گود ہو یا گھر کی دہلیز، مسجد و مدرسہ کی چہار دیواری ہو یا پھر عیدگاہ کا وسیع میدان،ارکان اسلام پر عملداری کا تقاضا سبھی کا منشا یہ ہوتاہے کہ انسان کو اللہ کے نام اور احکام سے متعارف کرایا جائے اور پھر احکام الٰہی کا منبع و مصدر شخصی طورپر آقائے نامدار حضرت محمدۖ کی ذات بابرکات ہے تو خطہ کے لحاظ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔رسالت مآبۖ سے محبت و عقیدت ہرذی شعور مسلمان کے رگ و پے میں پیوست ہے بعینہ اسی طرح سرزمین عرب سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار ہونا بھی باعث سعادت مندی ہے۔مسلمان مردو خواتین کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ جہاں سے شمع اسلام کا سورج طلوع ہواہے اور جہاں پر آنحضرتۖ اور صحابہ کرام اہل بیت عظام اور ازواج مطہرات و بنات نبوی ۖ اور اولیاء اللہ سلف صالحین نے تکالیف و آزمائشوں کا کھٹن سفر طے کرکے شرق و غرب ، بروبحر میں کلمہ اسلام کو خطہ زمین کے کونے کونے تک پہنچایا ہے اس کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور اپنے قلب و جان میں اس احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کریں کہ کس طرح محسنین اسلام نے خون جگر بہاکر گلشن اسلام کی آبیاری کی ہے۔تاکہ آج چودہ سوسال بعد تک جو ہم مسلمان ہیں تو اس میں ان اولین مسلمانوں کے ایثار و قربانیوں کی لازوال داستانوں کا کردار فراموش کرنا احسان فراموشی کے مترادف ہے۔
2013ء میں دوران تعلیم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر جامعہ سعودی نژاد ڈاکٹر احمد یوسف دریویش کی جانب سے عمرہ کی پیشکش ہوئی تو راقم نے دیگر طلبہ و اساتذہ کی طرح پاسپورٹ ترجیحی بنیادوں پر بنواکر دفتر میں جمع کرادیا ۔کچھ دنوں کے غور خوض کے بعد راقم کو یہ احساس ہواکہ کہیں یہ میرے تندوتیز قلم کو رام کرنے کی کوشش تو نہیں۔لہذا اسی دوران برصغیر کے عظیم داعی اسلام مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی کے افکار کی روشنی میں عصر حاضر کے تقاضوں پر کانفرنس کا انعقاد ہورتھا ۔پہلے پہل تو انڈین حکام نے ہمیں شرکت کا پروانہ جاری کرنے پر انکار کیا بعدازاں ہمیں نوید سنائی گئی کہ ویزہ جاری کیے جائیں گے تو راقم نے اسلامی یونیورسٹی سے فوراً پاسپورٹ واپس لیا کہ یہ عمرہ رشوت کے طورپر معلوم ہہورہاہے ہمیں منظور نہیں ۔انسان کے ذہن میں درجنوں خیالات آتے ہیں مگر اصل بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت منظوری ایزدی شامل حال نہ تھی جبھی ہم سفر حرمین سے محروم رہ گئے۔
گذشتہ سال2019ء میں زندگی کے متعدد عروج و زوال کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ زندگی کی33بہاروں میں ذاتی طورپر تلاوت قرآن مجید و ترجمہ قرآن کی تکمیل اور رجوع الی اللہ میں مشغول و مصروف رہا تو اسی میں اللہ جل شانہ نے جامعہ اصحاب صفہ کے قیام کے عزم کو عملی تعبیر میں منتقل کرنے کا راستہ ہموار کیا کہ والد محترم ڈاکٹر عبدالحلیم گورچانی نے پانچ مرلہ پر مشتمل اراضی پر مدرسہ تعمیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔جولائی2019ء کے مہینہ میں جامعہ اصحاب صفہ کی تعمیر کا کام شروع ہونے کے ساتھ ہی اللہ جل شانہ نے والدہ محترمہ کی دیرینہ خواہش اور شمع اسلام کو روشن کرنے کے عزم و ارادہ کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے سفر حرمین شریفین کی راہ ہنموار کی ۔والد ماجد نے اول خود سفر حرمین کا ارادہ ظاہرکیا بعدازاں مجھے والدہ کے ہمراہ سفر حرمین شریفین کا حکم دیا۔راقم نے متعدد دوست احباب سے رابطہ کیا تو سفر حرم کے ویزوں کے اجراء میں تاخیر کا مسئلہ درپیش ہوا۔بلآخر برادرم حافظ معاذ راشد کی دی مون انٹرنیشنل ٹریولزلاہور کی جانب سے 4نومبر 2019ء کو اللہ جل شانہ نے ہمیں یہ سعادت بخشی کہ علامہ اقبال ائیرپورٹ لاہور سے بذریعہ گلف ائیر پہلے بحرین پھر بحرین سے جدہ کا سفر کا آغاز سہ پہر سواتین بجے شروع ہوااور اس سفر کا اختتام مختصر بحرین میں ٹرانزٹ کے وقفہ اور احرام کو زیب تن کرنے کے وقفہ کے بعد بحرین سے جدہ کے لئے بعد از نماز مغرب روانہ ہوئے اور رات دس بجے کے قریب جدہ ائیرپورٹ پر پہنچے ۔ سفری دستاویزات کی چیکنگ کے بعد بذریعہ بس ہم جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچادئیے گئے۔
مکہ مکرمہ کی دہلیز پر پہنچتے ہی خوشی و مسرت اور شادمانی کی بدولت آنکھیں اشک بار ہوگئیں کہ جن واقعات و قصص کو جس مقام احترام کا تذکرہ زندگی بھر کتابوں میں پڑھا اور فرض نمازوں، نماز جمعہ اور عیدین میں جس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے آج اس کو اپنی گناہگارآنکھوں سے خانہ خدااور ارض مقدس کی زیارت کررہاہوں۔ ہوٹل میں پہنچ کر ضروری سامان رکھنے کے فوراً بعد حرم مکہ کی جانب روانہ ہوئے اوراذان تہجد کے عین بیج مسجد الحرام میں داخل ہونے کے بعد جب پہلی نگاہ بیت اللہ پر مرکوز ہوئی تو زندگی بھر کی لغزشوں کے دراوزے واں ہوگئے اور یہ خیال مستحضر ہواکہ اللہ جل جلالہ کس قدر رحیم و غفور ہے کہ ہمہ جہتی گناہ و نافرمانیوں کے باوجود بھی اپنے گھر میں حاضر ہونے کا موقع جیتے جی عنایت کررہاہے۔اس کا بدیہی تقاضا ہے کہ انسان آج اللہ کے حضور دل کھول کھول کر اپنی خطائوں کی معافی طلب کرے کیونکہ روئے زمین پر اس سے بہتردعائوں قبولیت کامقام کوئی بھی نہیں۔اللہ جل شانہ کے بے حد و حساب احسانات سے کندھے جھک چکے تھے۔ اور اس عالم میں اپنے اور اپنے عزیزو اقارب اور معاونین جامعہ اصحاب صفہ کے حق میں دعاکی۔ اور دورکعت نماز نفل اداکرنے کے بعد حجر اسود کے سامنے سبز لائیٹ اس کے بالکل سیدھی نصب ہے سے طواف بیت الحرام کا ارادہ کرتے ہوئے والدہ کی معیت میں استلام کرکے طواف شروع کردیا۔طواف سے فراغت کے بعد مقام ابراہیم کے سامنے دورکعت نماز نفل شکرانہ کے اداکئے اور پھر صفا مروہ کی سعی کی طرف ملتفت ہوا۔دوران سعی صفا و مروہ اذان نماز فجر ہوئی اور نماز کے قیام سے پہلے تین چکر مکمل کرچکا تھا اور نماز کے بعد باقی سعی مکمل کی ۔فراغت سعی کے بعد اشراق کے وقت نوافل اداکرکے آب زمزم پینے کے بعد حجام کے پاس جاکر میں حلق کرایا اور امی نے مروہ پر موجودہ عورتوں سے بال کتروائے۔یوں ہمارا پہلا عمرہ مکمل ہوا تو دل دودھاروں کے بیچ مچل رہاتھا کہ ایک طرف اپنے گناہوں اور معاصی پر پشیمانی تھی تودوسری طرف عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی خوشی و مسرت۔
مکہ مکرمہ میں پہلے چار روز کے قیام کے دوران دوعمروں کی سعادت حاصل ہوئی ،والدہ کی گھٹنوں کی تکلیف اور سفری تھکاوٹ کے سبب حسب توفیق پنج وقتہ نمازوں کے بعد طواف کا بھی اہتمام کرتے رہے۔ ایک جدہ سے مکہ پہنچنے کے بعد دوسرا مسجد جعرانہ سے عمرہ کااحرام باندھ کر۔ فتح مکہ کے بعد آپۖ نے جب طائف کو فتح کیا تو اس موقع پر صحابہ کرام نے وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ کی نیت کی تھی۔مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے ۔تو والدہ محترمہ فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہے کہ میں نے خواب کی حالت میں جو جو منظر و راستہ اور بیٹھنے کا انداز دیکھا تھا آج اس کی عملی تعبیر میری نظر وں کے سامنے ہے۔مدینہ منورہ میں ظہر کی نمار کے بعدپہنچے ۔سفری دستاویزات پر درج ہوٹل میں سکونت کی بجائے دوسرے ہوٹل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہاں پر موجود انتظامیہ کے نوجوان مستعرب تھے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ بدمزگی کا واقعہ رونماہواتو مدد کے لئے سعودی وزارت مذہبی امور کی جانب سے معمور حجاج و عمرہ زائرین کی خدمت پر مامور رابطہ نمبر پر رابطہ کیا تو کچھ وقفہ کے بعد دومستعد اہلکار پہنچے اور انہوں نے بعدازکلام کے ہمیں اپنے طے شدہ ہوٹل خدابخش ہوٹل منتقل کیا۔ اس درمیان عصر و مغرب کی دونمازیں ہم مسجد نبوی میں اداکرنے سے محروم ہوگئے۔
خدابخش ہوٹل مسجد نبویۖ اور مسجد قباء کے درمیان میں واقع تھا۔عشاء کی نماز مسجد نبویۖ میں جاکر اداکی اورنماز سے فراغت کے بعد روضہ محبوب خدا،وجہ تخلیق کائنات سیدنا محمدۖپر ہدیہ عقیدت اور صلاة و سلام پیش کرنے کے لئے باب السلام سے راہداری سے گزرنے کی سعادت حاصل کی،جہاں پر آپۖ کے مرقد اطہر،خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر اور خلیفہ عادل حضرت عمر بن الخطاب پر ہدیہ سلام پیش کیا۔مدینہ منورہ میں دس روز قیام تھا جس میں برابر کوشش کرکرتے رہے کہ پنج وقت کی نماز مسجد نبوی اور خاص طورپر حدود مصلیٰ نبی مکرمۖ میں جاکر نماز اداکروں اور ریاض الجنة میں نفل نمازوں کی ادائیگی ،اصحاب صفہ کے جبوترہ،آپۖ کے روضہ اطہر سے متصل مقام صلوٰة النبیۖ اور باب جبرائیل کی طرف الغرض روضہ رسولۖ کے سہ طرفہ نماز کی سعادت حاصل کی۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران جنگ خندق،جنگ احد،مساجد خلفاء اربعہ ،مسجد بلال،مسجد قبلتین، حضرت ابوایوب انصاری کے مسکن کے علاقہ، حضرت سیدنا سلمان فارسی کے باغ،مسجد الجمعہ ،باغ مدینہ وغیرہ کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ مسجد قباء جو ہجرت نبی اکرمۖ کے بعد دخول مدینہ کے ساتھ سب سے پہلے تعمیر کی گئی اور آپۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کوئی شخص مسجد قباء میں دورکعت نماز نفل اداکرے اس کو مقبول عمرہ کا ثواب ملتاہے۔مسجد قباء میں دومرتبہ بعد از نماز اشراق حاضری کی سعادت حاصل کی۔مسجد نبویۖ سے متصل قبرستان جنت البقیع واقع ہے جس میں ہزاروں صحابہ و اہل بیت النبیۖ اور تابعین و سلف صالحین آرام فرماہیں ،وہاں بھی تمام آرام فرمانے والوں کے لئے دعاکرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
مدینہ منورہ میں قیام کے دوران زیادہ تر وقت مسجد نبوی میں تلاو ت قرآن حکیم اور حلقہ دروس میں حاضری کی سعادت میسر رہی۔مدینہ منورہ میں دیرینہ مشفق و مربی اور ہمسفر پیر حافظ عمر فیصل آباد والوں سے بھی ملاقات کا اتفاق ہوا۔مسجد نبوی میں عرب ممالک کے محبین اسلام اور عشاق رسولۖ مصر،الجزائر، مراکش، مغرب وغیرہ کے کئی احباب سے عربی زبان میں تبادلہ خیال کرکے دلی مسرت ہوئی۔دس دن کے قیام کے بعد مدینہ منورہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے تومقام ذوالحلیفہ پر مسجد شجرہ اسے مسجد ذوالحلیفہ بھی کہتے ہیں میں نماز مغرب اداکرنے کے ساتھ عمرہ کے لئے احرام باندھنا تھا ۔اسی مسجد میں ایک جیسی راہداریاں ہونے کی وجہ سے والدہ وہاں پر لاپتہ ہوگئیں۔ بڑی تلاش کے بعد خادمین مسجد کی مدد سے والدہ تک رسائی حاصل کی۔مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد تیسرا عمرہ اداکیا۔مکہ مکرمہ میں بھی زیارتوں کی سعادت حاصل کی۔غار ثور، غار حرائ،مسجد جعرانہ،مسجد الجن، مسجد الفتح،مقبرہ عدل،جنت المعلیٰ،جبل رحمت، عرفات و منیٰ،مزدلفہ، مسجد نمرہ و مسجد مشعر الحرام حج کے مناسک اداکرنے کے مقامات کی زیارت کی۔حرمین شریفین کے سفر میں حجر اسود کو بوسہ دینے،حطیم میں نوافل اداکرنے ،ریاض الجنة میں نوافل کی ادائیگی اور دو قرآن پاک کی تکمیل کی سعادت حاصل کرنا زندگی کی تمام تر کامیابیوں سے بلند ترخوشی و راحت کا موجب سمجھتاہوں۔
سفر عمرہ سے 23نومبر کو واپسی ہوئی مکہ سے جدہ اورجدہ سے بحرین، جہاں آٹھ گھنٹے کے استراحت کے بعد بحرین سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے اور شام ساڑھے سات بجے علامہ اقبال ائیرپورٹ پہنچے جہاں پربیٹی عزیز، قریبی عزیز قاضی محمد قاسم اہلخانہ کے ہمراہ استقبال کیا۔سفر عمرہ میں مکہ مکرمہ میں محمد ظفر سیالکوٹ والوں کی معیت حاصل رہی،بحرین میں محمد منظور جدھڑ آف سرگودھا والوں سے تعارف ہوا۔بحمدہ تعالیٰ سفر عمرہ بخیر و عافیت اختتام کو پہنچا۔عمرہ کے سفر کے متمنی احباب کو چاہیے کہ شئیرنگ اور شٹل سروس والے پیکجز سے احتراز کریں کیوں کہ اس کی وجہ سے مکہ و مدینہ میں رہائش و نقل و حمل سمیت متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ تجربہ و مشاہدہ سے یہ بھی سبق حاصل ہواہے کہ جو احباب اذکارو وظائف عمرہ اور آداب عمرہ و آداب زیارت مقامات مقدسہ سے ناآشنا ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار کے حجاج و معتمرین یا پھر علماء کرام سے ایک ہفتہ سبق حاصل کرکے جائیں تاکہ ہزاروں میل سفر کا مقصد اصلی اجر و ثواب حسب استطاعت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔عمرہ و حج کے دوران یا نمازوں کے اوقات میں اور ریاض الجنة کی زیارت کے وقت موبائل فون کاکثرت سے استعمال عبادت و ریاضت سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتاہے۔ منع کرنے کے باوجود بھی موبائل استعمال کرنے پر استمرار رہتاہے جو کہ معیوب عمل ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ موبائیل کے استعمال کی بجائے ذکر اذکار اور تلاوت قرآن حکیم اور آقائے نامدارۖ پر صلوٰة سلام پڑھنے کے ساتھ مکہ میں حضرت مولانا مکی کے حلقہ درس میں شریک ہونا چاہیے اور مدینہ میں بھی دروس قرآن و دروس حدیث کے حلقوں میں شرکت باعث خیر و برکت ہے۔
سفر حرمین شریفین میں ایمان و ایقان کو تمازت ملتی ہے ،انسان کی زندگی بھر کی خوشیوں اور مسرتوں کی ابتداء و انتہاء مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت میں مضمر ہے۔سفر حرمین کرنے کی سعادت قابلیت کی بنیاد نہیں بلکہ قبولیت کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔اللہ کا فضل و کرم ہے کہ حرمین شریفین میں نصرت الٰہی سے خوب متمتع ہونے کا موقع میسر آیا اور رب کریم کے حضور کی جانے والی ہر استدعا و درخواست کی قبولیت میں دقیقہ بھر بھی تاخیر نہیں ہوئی۔بہت سے زائرین کی جانب سے بے اعتدالیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اس مبارک سفر کے اجروثواب کے زائل ہونے کا قوی امکان ہے۔ان میں سے یہ کہ حرم مکہ میں دوران عمرہ مردحضرات حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ سعادت مندی کا مظہر ہے تاہم دقت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حالت احرام میں یا دھکم پیل سے اس سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں۔ اسی طرح خواتین کی جانب سے حجر اسود کو بوسہ دینے کی پاداش میں پردہ کی پامالی و بھیڑ میں گزند پہنچنے کا قوی امکان ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اصل مسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ حجر اسود کو بوسہ دینا سنت اور تکریم انسان کو بحال رکھنا فرض ہے ،سنت کے حصول میں فرض کو ترک کرنا دانشمندی نہیں۔اسی طرح حطیم میں نماز اداکرنے اور غلاف کعبہ کو تھامے رکھنے، ملتزم، رکن یمانی پر بھی ہوشربابے اعتدالیوں کے مظاہر وقوع پذیر ہوتے ہیں جن سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔اسی طرح مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ۖ میں ریاض الجنة میں داخل ہوتے وقت ادب و آداب سے تہی دامنی بھی اعمال کے ضیاع کا موجب بن سکتاہے ۔سفر حرمین پر گئے ہوئے بہت سے معتمرین کو عرب شیوخ کی جانب سے لگائے جانے والے دستر خوان ،بطور اجر و ثواب تسبیح و مسواک،کھجور وغیرہ کی تقسیم میں چھینا جھپٹی کرتے دیکھا تو دل کو تکلیف ہوئی یہاں تک کہ حالت احرام میں لوگوں کو بھیک مانگتے دیکھا تو شرمندگی و سبکی ہوئی کہ پاکستانی زائرین عربی و عجمیوں سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔جس کی وجہ سے اہلیان پاکستان کی تزلیل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کو اپنے اور اپنے حبیب ۖ کے گھر میں بار بار حاضری کی سعادت عنایت فرمائے۔آمین یارب العالمین۔