بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) سابق وفاقی وزیر اور بھارتی حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما جیوترادتیہ سندھیا ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے ہيں۔ اس پيش رفت کو کانگریس کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
بدھ گيارہ مارچ کو سامنے آنے والی اس پيش رفت کے بعد اہم سوال یہ ہے کہ کیا مدھیا پردیش میں کانگریس اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ کانگريس کے اکیس اراکین اسمبلی نے پارٹی سے استعفی دے دیا ہے۔
گوالیار شاہی گھرانے کے فرزند جیوترادتیہ سندھیا نے ہندو تہوار ہولی کے موقع پر پارٹی سے استعفے کا اعلان کر کے کانگریس کے ‘رنگ میں بھنگ‘ ڈال دیا اور آج بروز بدھ ‘شبھ مہورت‘ میں دہلی میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کی موجودگی میں اس ہندو قوم پرست جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا۔بعد ازاں بی جے پی نے انہیں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی رکنیت کا امیدوار نامزد کر دیا۔ امکان ہے کہ جلد ہی انہيں وزير اعظم نريندر مودی کی کابینہ میں کوئی وزارت بھی مل سکتی ہے۔
جیوترادتیہ سندھیا نے سن 2018 میں مدھیا پردیش کی اسمبلی کے ليے انتخابات میں کافی محنت کی تھی اور کانگریس کی اچھی کارکردگی کو ان کا مرہون منت قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں امید تھی کہ اس کے عوض انہیں وزیر اعلی کا عہدہ یا کم از کم نائب وزیر اعلی کا عہدہ تو ضرور ملے گا۔ تاہم انہیں دونوں میں سے کچھ نہ ملا۔ کانگریس نے انہیں پارٹی میں جنرل سيکريٹری کا عہدہ دے کر مغربی اتر پردیش میں پارٹی کا انچارج بنا دیا۔ سندھیا اس سے خوش نہیں تھے۔ وہ مدھیا پردیش میں ہی کسی اہم عہدے کے خواہشمند تھے لیکن کانگریس نے اس پر توجہ نہیں دی۔ پارٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپریل میں راجیہ سبھا میں خالی ہونے والی سیٹوں میں سے بھی کسی سیٹ پر کانگریس انہیں نامزد نہیں کر رہی تھی۔ اس لیے انہوں نے ناراض ہوکر کانگریس چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
گوالیار کے سابقہ شاہی گھرانے کے وارث جیوترادتیہ سندھیا نے اپنے انیس سالہ سیاسی کیریئر کا آغاز کانگریس سے ہی کیا تھا۔ اس دوران وہ رکن پارلیمان، وفاقی وزیر اور پارٹی کے جنرل سکریٹری رہے۔ ان کے والد مادھو راؤ سندھیا بھی کانگریس کے سینئر رہنما تھے اور نو مرتبہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ شاہی گھرانے کی وجہ سے سندھیا خاندان کی علاقے میں کافی عزت ہے اور عوام ان کا کافی احترام کرتے ہیں۔ متعدد رہنما بھی اس گھرانے کے تئیں کافی وفادار ہیں۔ ایسے میں جیوترادتیہ سندھیا کے بی جے پی میں شامل ہونے سے کانگریس کے ليے مدھیا پردیش میں اپنا دبدبہ برقرار رکھنا، اب ايک مسئلہ بن گیا ہے۔
جیوترادتیہ سندھیا کے بی جے پی میں شامل ہونے سے مدھیا پردیش میں کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔کانگریس کے اکیس باغی ممبران اسمبلی نے اپنا استعفی اسپیکر کو بھیج دیا ہے۔ اگر اسپیکر ان اراکین کا استعفی قبول کر لیتے ہیں، تو کانگریس اسمبلی میں اقلیت میں آ جائے گی اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے دوران کمل ناتھ کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہر حال کانگریس نے امید ظاہر کی ہے کہ سیاست کے پرانے کھلاڑی کمل ناتھ اور سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ مل کر کانگریس کے کچھ ممبران اسمبلی کو اپنی طرف واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور مدھیا پردیش میں حکومت پارٹی کے ہاتھ سے نکلنے سے بچ جائے گی۔
جیوترادتیہ سندھیا کانگریس چھوڑنے والے پہلے سینئر لیڈر نہیں ہیں۔ ان سے پہلے نصف درجن سے زیادہ سابق وفاقی وزراء، کم از کم تین سابق وزرائے اعلی اور چار سابق ریاستی صدور پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے باوجود پارٹی کو مضبوط کرنے کا کوئی لائحہ عمل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ راہول گاندھی کے پارٹی صدر کے عہدہ سے استعفے کے بعد پارٹی کی قومی قیادت پر بھی سواليہ نشان لگ گيا ہے۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی قائم مقام صدر کے طور پر پارٹی کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن پارٹی کے مسائل پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔
بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد جیوترادتیہ سندھیا نے ‘اپنے خاندان‘ میں جگہ دینے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈا کا شکریہ ادا کیا۔ سندھیا نے کہا، ”آج میں غم زدہ بھی ہوں اور بے چین بھی کہ کانگریس پارٹی پہلے جیسی نہیں رہی۔ کانگریس میں حقیقت سے انکار کیا جا رہا ہے اور نئی قیادت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ کانگریس میں رہ کر عوام کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے میں نے بھارت اور بھارت ماتا کی خدمت کے لیے نیا پلیٹ فارم منتخب کیا ہے۔”