کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گذشتہ سات ماہ سے زائد عرصہ سے زیر حراست جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو آج رہا کر دیا گیا۔
جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کوگذشتہ برس 5 اگست کو مودی حکومت کی طرف سے ختم کردیے جانے اور متعدد سکیورٹی پابندیا ں عائد کیے جانے کے بعد سے ہی فاروق عبداللہ کو حراست میں رکھا گیا تھا۔ رہائی کے بعد انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ”جب تک تمام رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک وہ کوئی بیان نہیں دیں گے۔‘‘
فاروق عبداللہ کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے علاوہ متعدد کشمیری رہنما اب بھی حراست یا قید میں ہیں۔
قبل ازیں جموں و کشمیر حکومت نے نیشنل کانفرنس کے صدر، رکن پارلیمان اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جموں وکشمیر کی پرنسپل سیکریٹری شالین کابرا کے دستخط سے جاری حکم نامہ میں کہا گیا ”حکومت ڈاکٹر فاروق عبداللہ ولد مرحوم شیخ محمد عبداللہ ساکن گوپکارروڈ، سری نگر کے خلاف ضلع مجسٹریٹ سری نگر کی طرف سے پی ایس اے کے تحت 15 ستمبر 2019 کے نظر بندی کے حکم نامے جس میں بعد ازاں مزید تین ماہ کی توسیع کی گئی، کو منسوخ قرار دیتی ہے۔”
فاروق عبداللہ کی صاحب زادی صفیہ عبداللہ خان نے اپنے والد کے خلاف عائد پی ایس اے کی منسوخی کی خبر ملتے ہی ٹویٹ کیا ”میرے والد پھر سے ایک آزادشخص ہیں۔”
خیال رہے کہ 83 سالہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے دن پانچ اگست 2019ء کو ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ کو ہی جیل میں تبدیل کرکے نظر بند کردیا گیا تھا۔ بعد میں 16 ستمبر کو ان کے خلاف پی ایس اے عائد کردیا گیا۔ اس قانون کے تحت مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی شخص کو تین برس تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ قانون خود ان کے والد مرحوم شیخ عبداللہ نے اپنے دور حکومت میں بنایا تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حقوق انسانی کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پبلک سیفٹی ایکٹ کو ‘غیر قانونی قانون‘ قرار دیا ہے۔
بھارت کی آٹھ اپوزیشن جماعتوں نے گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی سے کشمیر میں زیر حراست تمام رہنماؤں کو جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ان جماعتوں نے اپنے ایک مشترکہ قرارداد میں کہا تھا ”وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں جمہوری اختلافات کو جارحانہ انتظامی کارروائیوں کے ذریعہ دبایا جارہا ہے۔ ان اقدامات نے آئین میں دیے گئے انصاف، آزادی، مساوات، خیر سگالی کے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جمہوری قدروں، شہریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادی پر حملے بڑھ گئے ہیں۔”
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمان میر محمد فیاض نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہم فاروق عبداللہ کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری رہنما محبوبہ مفتی اور سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کو بھی رہا کیا جائے۔ بھارت کی حکومت کو اب کشمیر میں سیاسی مذاکرات شروع کرنا چاہیے۔” انہوں نے دیگر رہنماؤں اور نوجوانوں کو بھی رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی والدہ کے ٹوئٹر ہینڈل پر ٹویٹ کرتے ہوئے دیگر تمام قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لکھا ”وقت آچکا ہے کہ تمام قیدیوں بشمول جموں وکشمیر سے باہر کی جیلوں میں بند ہزاروں نوجوانوں کو رہا کیا جائے۔”