انسانی تخلیق کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ پیکرِ خاکی کو فیصلہ کرنے کی مکمل اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے۔ فرشتوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ آزادانہ فیصلوں کی وجہ سے نئی مخلوق فتنہ و فساد برپا کرے گی اور باہمی آویزش سے خون کی ندیاں بہا دے گی لیکن اللہ تعالی نے انھیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں واضح لکھاہے کہ دو سے زیادہ راستوں کی موجودگی میں خدا کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ انسان کے لئے کسی راہ کا خود انتخاب کرے ۔راہ کا انتخاب کرنا انسان کا اپنا حق ہے اور یہ حق کسی دوسرے کو تفویض نہیں کیا جا سکتا۔یہ حق ہی تو اس کی تخلیقی پہچان ہے لہذا اس سے اسے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انسان جس راہ کا انتخاب کرنا چاہے اس کے لئے وہ بالکل آزاد ہے اور کوئی دوسرا شخص جبر، دبائو اور دھونس دھاندلی سے اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اس راہ کا انتخاب کرے جس کی خاکہ اس کے دل و دماغ میں ہے ۔ اعلانِ خداوندی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ۔ اعلانِ خدا وندی آزادی کا ایسا عظیم الشان منشور ہے جو آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت کا دیباچہ ہے ۔
قرآنِ حکیم کا واضح اعلان کہ تمھارے لئے تمھاری راہ اور میرے لئے میری راہ انسانی آزادی کا ایسا سنہری اصول ہے جس سے انسانیت کا ارتقاء مزید تیز ہو گیا کیونکہ جو نظریہ باطل پر استوار ہو گا وہ خود نبخود زمین بوس ہو جائے گا۔بیک وقت کئی راہوں کی موجودگی میں کسی من پسند راہ کے انتخاب سے صرف سچائی باقی رہ جاتی ہے کیونکہ غلط راہ کا بھرم زیادہ دیر تک قائم رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔حق آیا اور باطل چلا گیا کیونکہ باطل کا چلا جانا اور سرنگوں ہونا منطقی ہوتا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ اس کرہِ ارض پر کوئی ایسا فرد نہیں ہو گا جس کا جسم اس کی مرضی کے تابع نہ ہو۔ہر انسان اپنے جسم اور اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہے۔ہمارے ہاتھ ،پائوں ،سماعت ،بصار ت اور زبان پر ہمارا ہی حکم چلتا ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کے اپنے جسم پر کسی دوسرے انسان کی مرضی چلے۔ غلامی کے دور میں بھی ایسا ممکن نہیں تھا اب تو دنیا انسانی آزادیوں کی پرچارک ہے لہذا اب ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔اگر دوسروں کی جسموں پر اپنی مرضی کے خود ساختہ نظریہ کو نافذ کر دیا جائے تو یہ کرہِ ارض انتشار ،بد امنی اور قتل و غارت گری کا مرکز بن جائے ۔ اپنے جسم کی حفاطت ہر انسان خود کرتا ہے۔وہ اپنے جسم کو خود حکم صادر کرتا ہے کہ اس کے جسم سے کون سے اعمال سرزد ہونے ہیں۔اگر کسی انسان کے جسم پر اس کی مرضی نہیں چلے گی تو پھر کیا ہوگا؟ اگر میں سونا چاہتا ہوں تو حکم صادر ہو گا کہ سونا منع ہے۔اگر میں گرم پانی سے نہانا چاہتا ہوں تو حکم صادر ہو گا کہ ٹھنڈے پانی سے نہانا ہو گا۔اگر مجھے بھوک لگ رہی ہو گی تو حکم ہو گا کہ کھانے سے لطف اندوز ہونا منع ہے۔ میں اپنے جسم کو گرم رکھنا چاہتا ہوں جبکہ حکم ہو گا کہ جسم کو ٹھندا رکھو۔ میں اپنے ہاتھوں سے لکھنا چاہتا ہوں لیکن حکم ہو گا کہ اپنے ہاتھ اور قلم ہمیں دے دو۔کوئی میرے بازو مانگ رہا ہو گا کوئی میرے سر کا خواہاں ہو گا اور کوئی میرے دل کا طلبگار ہو گا،کوئی میرے سینے پر مونگ دلنا چاہ رہا ہو گا ،کوئی میری آنکھوں کا طلبگار ہو گا اورکوئی میری کلائیاں مروڑنا چاہتا ہو گا لہذا انسان کا زندہ رہنا ناممکنات میں شمار ہو گا لہذا اس بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ میرا جسم میری مرضی کے تابع ہے۔،۔
سوال یہ نہیں ہے کہ میرا جسم میری مرضی کا فلسفہ غلط ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ یہ نعرہ چونکہ صنفِ نازک کے ہونٹوں سے ادا ہوا ہے لہذا اس میں فحا شی،بے حیائی اور اور بے غیرتی کا پہلو شامل کر دیا گیا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عورت اس کرہِ ارض کا سب سے حسین تحفہ ہے اور مرد اس تحفہ کے حصول کے جتن کرتے کرتے اپنا سارا جیون گزار دیتا ہے۔ لڑکپن سے شروع ہونے والا میلان اس کی زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہتا ہے۔بیک وقت اس کی نظریں کئی مہ جبینوں پر ٹکی رہتی ہیں لہذا اس خوبصورت تحفہ سے انسان کا کبھی دل نہیں بھرتا ۔ وہ ہمیشہ دل لگی کے شغف میں خود کو نوجوان ثابت کرنے کے جنون سے رہائی نہیں پا تا۔وہ صنفِ نازک کے سحر کا اسیر رہتا ہے جس کے لئے وہ رقص و سرور کی محافل سجاتا ہے تا کہ دل کے ارمانوں کو تسکین پہنچا سکے۔عورت چونکہ سدا سے اس کیلئے کسی کھلونا سے کم نہیں ہے لہذا یہ سننا اسے گوارا نہیں کہ کوئی صنفِ نازک میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کر کے اس کے مچلتے ارمانوں پر اوس گرا دے۔وہ عورت کو سدا باندی بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور اس کے حسن کے جلووں سے لطف اندوز ہو نا چاہتا ہے۔ہندوئوں کے ہاں تو داسیوں کو رواج تھا جبکہ اسلام کے دامن کو ملا نے لونڈیوں کے وجود سے بھر دیا اور انھیں شہنشائوں کے حرم کی زینت بنا کر اپنا حصہ وصول کیا ۔ وقت نے کروٹ لی اور عورت نے ایسی تمام پابندیوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے حوا کی بیٹی کی عصمت اور حیاء کو ایک ایسا گوہر بنا کر پیش کیا جس نے شہنشائوں کے حرموں کو ویران کر دیا۔آج کی عورت ماضی کی عورت نہیں ہے جو مرد کے جبر میں بھی اس کی غلامی کو ترجیح دے۔آج عور ت نے غلامی کی ان تمام زنجیروں کو توڑ کر برابری کا علم بلند کر دیا ہے جس کا حوصلہ اسے اسلام نے عطا کیا ہے ۔
اسلام کے دامن میں جو شہ سب سے اہم ہے وہ علم کا حصول ہے اور آج کی بیٹی علم کے حصول میں مردوں سے کہیں آگے ہے۔مردوں کا ذہن تو عورت کے خطوط کی بناوٹ ،دلکشی،رعنائی اور خراش تراش سے آگے سوچنے سے قاصر ہے جبکہ آج کی بیٹی علم کی شمع تھامے آگے بڑھتی جا رہی ہے ۔ وہ ہر میدان میں اپنی ذہانت ،فراست اور کردار سے انسانی خدمت کے نئے دیپ جلا رہی ہے۔ ماضی میں مردوں نے اسے جہالت اور لا علمی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا تھا،اسے گھر میں مقید کر رکھا تھا ، اس پر علم کے دروازوں کو مقفل کر دیا گیا تھا اور اسے دنیا کو دیکھنے اور اس کی جمالیات سے بے بہرہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا اور اداروں میں خدمات سر انجام دینا تو بڑے دور کی بات ہے۔اسے تو شادی پر اپنی پسندو نا پسند کا اختیار بھی نہیں تھا۔اس کا انکار غیرت کا استعارہ سمجھا جاتا تھا اور انکار کی سزا بڑی عبرت ناک ہوتی تھی۔
غیرت کے نام پر قتل تو روزمرہ کا معمول ہے۔جہاںبیٹی نے اپنی پسند کا اظہار کیا اس پر بغاوت کا فلسفہ چسپاں کر کے اسے ذاتی ھواہشوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے حالانکہ یہ اس کا بنیادی حق ہے کہ شادی جیسے مقدس رشتہ میں منسلک ہونے سے قبل اس کی رائے پوچھی جائے۔صدیوں کی غلا می کے بعد سائنس کی حیرت انگیز ترقی اور میڈیا کی آزادی نے عورت کو اپنے حقو ق کا جو شعور عطا کیا ہے وہ جبر کے حامیوں کو گوارا نہیں ہے ۔وہ اب بھی رجعت پسندی کے اسی خول میں بند ہیں اور اسے برابری کا مقام دینے کیلئے تیار نہیں۔اسے زدو کوب کرنا ،اس پر تشدد کرنا،اس کے ساتھ مار پیٹ کرنا ،اسے گالیاں دینا اس کے ساتھ وحشیا نہ رویہ اپنا اور اسے کمتر سمجھنا مرد کی گھٹی میں شامل ہے۔اسلام نے ماں کو جو اعلی مقام عطا کیا ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن بیوی کا جو مقام و رتبہ ہے وہ سب پر عیاں ہے۔دو وقت کی روٹی کی خاطر اسے جانوروں کی طرح صبح و شام کام کرنا پرتا ہے لیکن وہ خاموشی سے سب کچھ سہہ جاتی ہے۔وقت کے جبر نے عوت کو جو شعور عطا کیا ہے اسے فحاشی اور بے حیائی کے لیبل سے داغدار نہیں کیا جا سکتا۔دن دھاڑے عورتوں کو رسوا کرنے والے،انھیں غوا کرنے والے اور ان کے چہروں پر تیزاب پھینکنے والے کیا یہ برداشت کر سکیں گے کہ عورت یہ اعلان کرے کہ میرا جسم میری مرضی؟
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال