افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) کابل حکومت نے طالبان کے ایک ہزار پانچ سو قیدیوں کی رہائی ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت گزشتہ ماہ امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ میں طے پانے والا امن معاہدہ سبوتاژ ہو سکتا ہے۔
افغان قومی سلامتی کے دفتر کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق قیدیوں کی فہرست پر نظرثانی کی وجہ سے طالبان کے جنگجو قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے وعدہ کیا تھا کہ خیر سگالی کے طور پر ہفتہ چودہ مارچ سے قیدیوں کی رہائی کا آغاز کر دیا جائے گا تاکہ بین الافغان مذاکرات شروع ہو سکیں۔
طالبان کی جانب سے ابھی تک اس بارے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
قبل ازیں دوحہ میں طالبان کی جانب سے اپنے 5000 جنگجوؤں کی فہرست ایک امریکی مذاکرات کار کے حوالے کر دی گئی تھی، جس نے اسے افغان حکومت کی انتظامیہ تک پہنچایا تھا۔
دوحہ معاہدے میں افغانستان میں دیرپا امن کے حصول کے لیے ایک اہم شرط انٹرا افغان ڈائیلاگ سے قبل پانچ ہزار طالبان اور ساتھ ہی ایک ہزار افغان حکومت کے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔
صدر شرف غنی کے مطابق آج ہفتے کے روز سے آئندہ پندہ روز تک یومیہ ایک سو قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا جبکہ مزید تین ہزار پانچ سو قیدیوں کی رہائی بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت اور پرتشدد کارروائیوں میں کمی سے مشروط ہے۔
انتیس فروری کو امریکا اور طالبان کی جانب سے دوحہ میں دستخط کیے گئے معاہدے کو قریب انیس برس سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں افغان سرزمین سے امریکا اپنے 13000 فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اگر طالبان افغانستان میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ فراہم کرنے کے وعدوں پر عمل کرتے ہیں تو، معاہدے کے مطابق، واشنگٹن 14 ماہ کے دوران اپنے باقی فوجی بھی وطن واپس بھیج دے گا۔