سردار غلام عباس مدبر سیاست اور سیاسی بصیرت اور فہم و فراست سے مالامال ایسے سیاست دان ہیں جن کی ملکی سیاست پر گہری نظر ہے اور ضلع چکوال کی سیاست پر مکمل عبور ہے۔ جس طرح زندگی کے تجربے کے حامل منفرد افراد کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی جاتی ہے اور اب پاکستان میں بھی یونیورسٹیاں ایسی اعزازی ڈگریاں دے رہی ہیں۔ضلع چکوال کی سیاست پر جتنی گہری نظر ،عملی تجربہ اور سیاسی خدمت پر کوئی یونیورسٹی سردار غلام عبا س کو پی ایچ ڈی کی کی ڈگری ایوارڈ کر سکتی ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے سردار غلام عباس کی اسلام آباد میں ملاقات بظاہراً دیرینہ تعلقات تھے لیکن مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ کہنا کہ شاہد خاقان عباسی نے سردار غلام عباس کو ن لیگ میں شامل نہ کر نے کا عندیہ دیا جوکہ حقائق کے خلاف اور غیر سیاسی بیانیہ ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی سے ملاقات،مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کا ملک سے باہر چلے جانا اور مریم نواز کے ٹویٹر کے بند ہو جانے پر مسلم لیگ ن کے اندر ہر سطح پر مایوسی بڑھی اور پارٹی کے اندر بغاوت کی خبروں نے زور پکڑا تو ملک کے اندر موجود قیادت کو اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کیے لیئے قومی میڈیا کے سامنے ایسا فوٹوسیشن کرنے کی ضرورت محسوس کی جس سے یہ تاثر قائم ہو کہ سیاست دان مسلم لیگ کو چھوڑ کر جا نہیں رہے بلکہ قد آور سیاست دان واپس مسلم لیگ میں شامل بھی ہو رہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کو اپنی سیاسی کارگردگی دکھانے اور پارٹی کے اندر اپنا گروپ بنانے کے لیئے سردار منصور حیات ٹمن کو مسلم لیگ ن میں با ضابطہ شامل کرنے کی تقریب کا اہتما م کرنا پڑا۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا۔یہ سیاسی اعلان کافی عرصے سے مناسب وقت اور موافق سیاسی حالات کے پیش نظر التوا کا شکار ہوتا رہا۔ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے آغاز سیاست کرنے والے سردار منصور حیات ٹمن کی سیاسی سہرا بند ی ایک با رپھر مسلم لیگ ن کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ مستقبل کا مورخ ہی بتا سکے گا کہ شاہد خا قان عباسی نے حق دوستی ادا کیا یا سردارمنصور حیات ٹمن کو سیاسی ضرورتوں نے مسلم لیگ ن کی طرف واپس آنے پر مجبور کیا۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق سردار منصور حیات ٹمن کے پاس آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کے علاوہ کوئی اپشن نہیں تھا لیکن یہ اپشن سیاسی طور پر زیادہ پاور فل تھا۔ اس فیصلے سے جہاں شاہد خاقان عباسی کی قائدانہ سیاسی بصیرت کی آزمائش ہوگی وہاں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ سردار منصور حیات ٹمن پارٹی کو کتنی قومی اور صوبائی نشستوں کا تحفہ دیتا ہے۔ سب سے اہم بات کہ رائے دہندگان اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا پارٹی کو اس فیصلے سے عوامی مزاہمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سردار منصورر حیات ٹمن کو پی ٹی آئی میں پارٹی کے اندر سیاسی مزاہمت کے سبب پارٹی کو خیر آباد کہنا پڑا۔
یاسر پتوالی کی صحافت سے سیاست کی طرف پیش رفت اہل سیاست کے لیئے نہ تو کوئی خطرے کی خبرتھی اورنہ ہی تلہ گنگ کے سیاست دانوں کی نظروں میں اس سیاسی انٹری کی کوئی اہمیت تھی لیکن اس نے اپنے صحافتی اور سیاسی تجربے سے اس حلقے کے دو قومی اسمبلی کے امیدواروں کو سیاست سے ناک آوٹ کرکے پی ٹی آئی کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کی۔ یاسر پتوالی عمران خان کے دورہ دندہ شاہ بلاول کے موقع پر تلہ گنگ کے صحافیوں کا وفد لیکر گیا جنہوں نے عمران خان سے سوال کیا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ اپ قومی اسمبلی کا ٹکٹ سردار فیض ٹمن کو دے رہے ہیں جس پر جعلی ڈگری کا الزام ہے۔عمران خان نے صحافیوں کو مطمعن کیا کہ اگر جعلی ڈگری کا الزام درست ہوا تو سردار فیض ٹمن کو ٹکٹ نہیں ملے گا۔ اور پھر فیض ٹمن ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔سردار منصور حیات ٹمن کے سیاسی راستے میں بہت مزاحم رہا سوشل میڈیا اور یوتھ کے پلیٹ فارم سے بھر پورکمپین کی۔
پی ایم ایل این آفیشل این اے ٦٥ کے سوشل پیج سے یہ بد خبری سامنے آ رہی ہے کہ ایک بار پھر سیاست دانوں کو ہماری پارٹی کا پیار جاگنا شروع ہو گیا ہے۔ تحصیل تلہ گنگ کی سیاسی قیادت کا شامل نہ ہونا اپنی جگہ الارمنگ ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک صورت حال حلقے کے رائے دہندگا ن کا اس فیصلے کو قبول نہ کرنا ہے۔ خیر اندیشوں کو دعا کرنی چاہئے کہ سردار منصور حیات ٹمن کے سیاسی سفر میں مسلم لیگ ن کا کوئی پیارا یاسر پتولی بن کر نہ کھڑا ہو جائے۔