کرو نہ ۔۔۔ کا مطلب ہمارے نزدیک تو یہ ہے کہ ہر اس کام سے کرو” نہ” جس سے رب کائنات نے روک رکھا ہے۔
اللہ کی شان دیکھیئے کل تک جس دنیا مین مسلمان عورت کے نقاب کھینچے جا رہے تھے ۔ اس کے حجاب پر اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے ، اس کے پورے لباس پر بھپتیاں کسی جا رہی تھیں ، مسلمانوں کے انداز زندگی پر تمسخر اڑایا جاتا تھا اسی دنیا میں آج ایک چھوٹے سے جرثومے “کرونا” نے موت کا ایسا خوف بھر دیا ہے کہ جن عیاشیوں کو وہ زندگی کا مزا قرار دیا کرتے تھے اسی دنیا میں چمی جپھی پپی سب کچھ بند ، ننگ پنا بند ۔
جہاں مسلمان عورت کے نامحرم سے ہاتھ نہ ملانے کو جہالت قرار دیا جاتا تھا وہیں کا میڈیا اب چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں ، بوس و کنار سے پرہیز کریں اور دوسرے سے مصافحہ تک نہ کریں ۔ چہرہ ڈھانپ کر رکھیں ۔۔۔۔ اللہ تیری شان ۔۔۔
دین اسلام پر آوازے کسنے والوں کی اپنی مادر پدر بے لگام طرز زندگی کو خدا کا خوف تو نہ بدل سکا لیکن موت کے خوف نے کیسی لگام ڈالی ہے ۔۔ اسلام ایک طرز ذندگی ہے ایک نظام حیات ہے ۔ جس میں کچھ بھی ہے تو بس خیر ہی خیر ہے ‘ بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ دنیا کی ہر پاکیزہ چیز کو اللہ نے اپنے مسلمانوں کے لیئے حلال کہہ کر چن لیا ۔ پھر چاہے وہ پیدائش کا مرحلہ ہو یا موت کے بعد کا واپسی کا سفر ۔ حلال خوشبودار اور لذیز پکوان ہوں یا خوبصورت ترین ستر پوش ملبوسات ہوں، اور بتایا کہ جو لباس آپ کے جسم کی پردہ پوشی نہیں کرتا وہ لباس ہی نہیں کہلا سکتا ۔ رشتوں کا حسن ہو کہ جس میں ایکدوسرے کے ساتھ حفاظت ،توقیر اور محبت کیساتھ باندھ دیا گیا ہے یا تعلقات کی نوعیت اور اس کا دائرہ ہو جو یہاں تک آپکو سکھاتا ہے کہ ایک نامحرم مرد و زن سے بات کرتے ہوئے آپ کے تاثرات اور آواز کی رینج کتنی ہو کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی جانب سے کسی بدگمانی یا خوش گمانی میں نہ پڑ سکیں اور یوں کسی برائی کی راہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکیں ۔
آج دنیا بھر کا غیر مسلم میڈیا چیخ چیخ کر اپنی جانیں بچانے کے لیئے خود کو اسلام ہی کے مطابق ملبوس ہونے کا سبق دے رہا ہے ۔ پورے کپڑے پہنو ، ایکدوسرے کیساتھ ناجائز جسمانی تعلقات سے بچو ، ہر ایک سے چپکنے سے پرہیز کرو۔ جہاں جہاں قران پاک کی بیحرمتی جیسے واقعات ہوئے ان ممالک میں اسی قران پاک کے مطالعے کو تجویز کیا جا رہا ہے۔ کیوں ؟ تاکہ تم فلاح پا جاو ۔ پھر یہ فلاح مسلمانوں نے کیوں نہیں پائی؟ پائی تھی تب تک جب تک وہ اسلام کے اس ضابطہ حیات پر عمل کرتے رہے پھر جیسے جیسے وہ اس کلام الہی سے دور ہوتے چلے گئے فلاح اور خیر بھی ان کی زندگیوں سے رخصت ہوتی چلی گئی ۔ آج دنیا بھر میں مسلم زوال کا سبب یہی تو ہے کہ مسلمان ہی آج مسلمان نہ رہا ۔ اس نے اپنے آپ کو فلاح کے بدلے دنیا خرید کر آسودہ کرنے کی کوشش کی ۔ گویا اس نے ہیرے دیکر کوئلے خرید لیئے ۔ اسی سبب آج اس کا منہ بھی کالا ہو گیا اور دل بھی ۔۔۔
کرونا وائرس تیرا شکریہ تو نے لوگوں کو اللہ کا پیغام پھر سے سننے اور سمجھنے کے لیئے مجبور کر دیا ہے ۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جس سے جو چاہے کروا سکتا ہے ۔ پھر وہ نظر نہ آنیوالا کرونا ہی کیوں نہ ہو۔ اسے بھی اس دنیا کے باسیوں کی بقا اور فلاح کے لیئے حرکت میں آنا ہی پڑا ۔ غلیظ اور مردار خوراکیں ، فیشن اور جدت کے نام پر ننگ دھڑنگ جسم ، آذادی کے نام پر کھلی جسم فروشی ، ترقی کے نام پر اعلانیہ ضمیر فروشی ، رشتوں کے نام پر جہاں رات ہوئی وہیں اسی کیساتھ سو جاو کا دھندہ ، کہیں ہم جنسی کی آگ لگی ہوئی ہے اور قانون فطرت کا مذاق اڑایا جا ریا ہے اسے قانونی تحفظ دینے کے نام پر اللہ سے ٹکر لی جا رہی ہے ۔۔اللہ کے غضب کو بار بار آواز ہی تو دیتا ہے ۔ پھر ہم اللہ کے لیئے باز نہیں آتے بلکہ موت کے ڈر سے چار روزہ پرہیز شروع کر دیتے ہیں ۔۔
دنیا بھر میں باحیا مسلمان عورت اور مرد کو یہ بےضمیر لوگ جبرا بے لباس کرتے ہیں تو وہاں ان کے مرد و زن شیطان کی پیروی میں اپنے ہی ہاتھوں خوشی سے بے لباس ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں یہ اپنے نفس کی تسکین کے لیئے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹواتے ہیں وہیں ان کے ممالک میں اپنے ہی اعمال کے سبب کوئی نہ کوئی ایڈز ، ایبولا ، کرونا لاشیں بچھاتا چلا جاتا ہے ۔ ہے نا کمال کی بات ۔۔ تو بس جان لیجیئے کہ ایک اللہ ہی ہے جو کن کہہ کر کائناتیں تخلیق فرماتا ہے ۔
پانی کی بوند سے پورا انسان تخلیق کرتا ہے ، کالی بھینس میں سے گھاس پھونس کھلا کر بھی سفید و شیریں دودہ پیدا کرواتا ہے ، زمین کا سینہ پھاڑ کر ہمارے لیئے رزق پیدا فرماتا ہے ، پانی سے بادل بناتا ہے اور پھر اسے جہاں چاہے گھماتا ہوا لیجاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے وہاں برسا کر جل تھل کرتا بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے ۔