حامد میر صاحب ملک کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ صحافت کی مختلف سمتوں سے گزرے۔ آج کل جنگ اخبار میں ان کے کالم شائع ہوتے ہیں۔جنگ گروپ کے جیو ٹی وی چینل کے اینکر پرسن کے طور پر کام کرتے ہیں۔پچھلے دنوں اسلام آباد پریس کلب میں پشتون قوم پرستوں کی پارٹی نیب کے متعلق پروگرام ہوا۔ دوسرے مقریرین کے علاوہ حامد میر نے بھی تقریر کی۔ حامد میر نے مرحوم عبدالغفارخان اور عبدالولی خان کو محب وطن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس میں حامد میر نے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ کو درست رکھنے کے لیے یہ کالم لکھنا پڑا۔حامد میر نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ حلقے (مرحوم) عبدالغفار خان ، ولی خان اور ان کی پارٹی کو ملک دشمن کہتے ہیں۔ہم کچھ اپنی طرف سے لکھنے کے بجائے حامدمیر اور ان جیسی سوچ رکھنے والے کی خدمت میں نیپ کے ایک پرانے کارکن اور گھر کے بھیتی جناب جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریب ناتمام” کے کچھ حصے قارئین کی نظر کرتے ہیںتا کہ تاریخ کو کوئی مسخ نہ کر سکے۔پہلے تو اس کتاب کے آخری کور پر حامد میر کے اپنے الفاظ دیکھیں” جمعہ خان صوفی کی کتاب فریب ناتمام سامنے آئی۔ جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نیپ کے رہنما اجمل خٹک کابل میں بھارتی سفارکاروں کی مدد سے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مصروف تھے۔اجمل خٹک کابل میں سندھو دیش کے حامیوں کی مدد کرتے تھے۔جی ایم سید( غلام مصطفےٰ شاہ) کے بھارت کے دورے کے دوران نیپ کے لوگوں نے جی ایم سید سے ملاقات کی” یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ ولی خان پارٹی کے سیکر ٹیری اجمل خٹک خان افغانستان میں بیٹھ کر پشتونستان کی جنگ برپا کیے ہوئے تھے۔
بلکہ انہیں نے یہ تک کہا تھا کہ وہ افغانستان سے سرخ ڈولی پر بیٹھ کر پاکستان میں داخل ہو گا۔ ایک روایت کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے وقت ایک گدھے پر بیٹھ کر خفیہ طریقہ سے پہاڑوں سے گزار کر پاکستان میں داخل ہوا تھا۔اس کتاب کے صفحہ ١٢٤ پر لکھا ہے کہ” ریڈیو افغانستان کابل سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا” پختونستان” کے نام سے ہوتا تھا۔اب اس کادورنیہ بڑھا دیا گیا اور اس کا نام پختونستان اور بلوچوں کا پرگروام رکھ دیا۔ ”۔ صفحہ ١٢٥ پر لکھا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے میری ( جمعہ خان صوفی)ڈیوٹی لگائی گئی۔کہ خفیہ طور پر ولی خان کو پیغام پہنچا دوں۔چارسدہ گیا ولی خان سے ملا اور انہیں سردار دائود کا پیغام، بلکہ اجمل خان کا پیغام پہنچایا کہ افغانستان اس بات کے لیے تیار ہے کہ وہ پختون زلمے کو ٹرنینگ دے اور مسلح کر دے۔ اس کے جواب میںولی خان نے کہا کہ اچھا ہوا کہ تم آ گئے میری طرف سے سردار دائود کو پیغام پہنچا دیں کہ پاکستانی ایئر فورس کے کے بعض پشتون پائلٹ اپنے جیٹ طیاروں اغوا کر کے افغانستان اُتر جائیں گے۔لیکن ایسا نہ ہو کہ دائود خان اُن کو واپس پاکستان کے حوالے کر دے۔صفحہ ١٢٧ ۔١٢٨پر لکھا ہے کہ ولی خان نے ہندوستان، عراق کے سفراء کے علاوہ سویت یونین کے سفیر سے بھی ملاقات کی۔ولی خان سردار دائود کو باور کراتے رہے کہ تمام پشتون اور بلوچ حتمی طور پر نیپ کے ساتھ اور ایک بھر پور جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ولی خان یقین دلاتے رہے کہ افواج پاکستان ہندوستان سے شکست کی وجہ سے پست ہمت ہیں اور مورال کمزور ہے اورپشتوں اور بلاچوں کی مشترکہ قوت کے سامنے یہ فوج ٹہر نہیں سکتی۔ تربیت یافتہ جوان اپنی ٹرنینگ کے اختتام پر مختلف راستوں سے پاکستان واپس ہوئے۔یہ لوگ اپنے ساتھ اسلحہ،ٹائم بم، گرینیڈ اور دیگر مواد پاکستان لے گئے۔جاتے ہی ان لوگوں نے پلان کے مطابق دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کیں۔ بلوچستان میں فوج کے خلاف جگہ جگہ کاروائیاں ہوتی رہیں”۔ قارئین یہ جنگ اور پاکستان کے خلاف بغاوت کی باتیں ہیں یا پاکستان کے محب وطن ہونے کی باتیں ہیں ۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ ویسے ہم نے کچھ عرصہ پہلے اسی کتاب کے مندرجات پر پاکستانی قوم کی آگاہی کے لیے مسلسل چھ کالم لکھے جو پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔
جہاں تک حامد میرکا قوم پرستوں کا بہی خواہ ہونے کاتعلق ہے تو وہ اپنے قوم پرست مرحوم والد وارث میر کا انعام وصول کرنے کے لیے بنگلہ دیش گئے۔ تو وہاں کیا فرمایا تھا وہ بھی پڑھ لیں۔حامد میر پاکستان کی دشمن بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کی دعوت پر ڈھاکا اپنے والد مرحوم وارث میر کی یادگاری ٹرافی لینے ڈھاکا گئے۔ وہاں پر کہا تھا کہ پاکستانی فوج پر جنگی جراہم کا مقدمہ قائم کرنا چاہیے ۔حامد میر کے والد وارث میر نے بنگلہ دیش کی قومیت پرستوں اورمکتی باہنی کی حمایت اورمشرقی پاکستان میں بغاوت کو کچلنے والی پاکستان کی فوج کے خلاف لکھنے پر بنگلہ دیش نے انہیں ٹرافی عنایت کی تھی۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان ،پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اوربھارت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے ایک معاہدہ کے تحت پرانی ساری رنجشوں کو بھلا دینے کا عزم کیا تھا۔کمانڈو جرنل مشرف نے بنگلہ دیش میں رسمی معافی بھی مانگ لی تھی۔پھر بھی گھڑے مردے اُکھیڑ تے ہوئے اس معاہدے کے سرا سر خلاف بھارتی ایجنٹ وزیر اعظم حسینہ واجد نے پاکستان کے حمایتیوں کو جعلی جنگی ٹریبیونل کے کی جعلی کاروائی کے ذریعے پھانسیوں پر چڑاھا دیا۔
٢ اور پاکستانی فوج پر جنگی جراہم کا مقدمہ قائم کرنے کے اپنے ارادے کا ظہار کر چکی ہے۔اسلام دشمن مغرب کی آلہ کار اور کٹپتلی ملالہ یوسف زئی کو پرموٹ کرنے میں حامد میر کا بڑا دخل ہے۔جب بی بی سی کا مقامی نامہ نگارملالہ یوسف زئی کی ڈائری لکھ کر آن ایئر کر رہا تھا۔تو حامد میر نے ملک دشمن جیو ٹی وی چینل پر ملالہ یوسف زئی کو پرموٹ کر رہا تھا۔پھر لندن جاکر ملالہ سے ملاقات بھی کی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے آقائوں کے ہدایت پر ملالہ کے باپ کو سفارت خانے میں ملازمت بھی دی۔
ملک دشمن جیو ٹی وی چینل بھارت کی ایما پرپاکستان فوج کے خلاف گاہے گاہے اپنا زہر اُگلتا رہتا ہے۔کچھ عرصہ قبل اپنے حامد میر کو کسی پروگرام کے لیے کراچی طلب کیا تھا۔ کراچی ایئر پورٹ سے نکلتے ہوئے کسی نے حامد میر پر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہوئے۔ شکر ہے کہ اللہ نے بچا لیا۔اس کے بعدبغیر کسی ثبوت کے جیو ٹی وی نے اپنی خباست کااظہار کیا کیا۔ آٹھ گھنٹے پاک فوج کے مایا ناز سیکورٹی ادارے آئی ایس آئی کے حاضر ڈاریکٹر کے فوٹو کے ساتھ پروگرام چلایا۔حامد میر کے بھائی نے بغیر ثبوت کے آئی ایس آئی پر فائرنگ کا الزام لگا۔
حامد میر مسنگ پرسن کے حق میں بولنے کے بڑے چمپئین بنتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی بے قصور غائب کر دیا جائے تو اس کے حق میں بولنا اچھی بات ہے ۔ مگر جو ملک دشمن پاکستان کو توڑنے ، بھارت اور افغانستان میں جا کر چھپ جاتے ہیں اوراپنے آپ کو مسنگ پرسن ظاہر کر پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بد نام کرتے ہیں ان سے ہمدردی سمجھ نہیں آتی ۔ مسنگ پرسن کا نام نہاد لیڈرماما قدیر جو بلوچستان سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔ حامد میر نے اس کے ساتھ جیو ٹی وی پر پروگرام کیا۔ یہ پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔ کیا جن دہشت گردوں نے سیکورٹی ادارے کے اہل کاروں کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلے۔پاکستان کے فوجیوں کے سر اُچھالتے رہے۔ ان کے خلاف بھی جیو ٹی وی پر کوئی پروگرام کیا ہے۔جمہورت پسند حلقے فوج کے بار بار ملک پر قبضہ کرنے کے خلاف ہیں۔ مگر اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی ملک کا بہی ہے تو اسے فوج کی اس غلطی پر ، پاک فوج کو روگ فوج ظاہر کرنے والے اسلام اورپاکستان دشمنوں کا آلہ کار تو نہیں بننا چاہیے؟
صاحبو! نہ جانے صحافی حضرات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دو قومی نظریہ کے خلاف سیکولرزم اور قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوںکی حمایت کرتے ہوئے اللہ کے خوف سے نہیں ڈرتے۔ جب بر عظیم کے لوگوں نے اللہ سے اعلانیہ دعدہ کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ” تو اللہ نے اپنی سنت پر مخلوق اللہ سے ہدایت مانگتی ہے تو اللہ ضرور ہدایت دیا ہے اس لیے مثل مدینہ ریاست لوگوں کو تشتری میں رکھ کر پیش کر دے۔ جب افغانوں نے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ مل اسلامی نظام کے لیے افغانستان میں جہاد کی تو اللہ دنیا کے سب سے بڑی طاقت کو شکست ہی نہیں دی، چھ اسلامی ریستیں آزادہوئی۔ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان توڑنے کا بدلہ بھی روس سے لے لیا۔ مشرقی یورپ آزاد ہوا دیوار برلن ٹوٹی۔ اب جہاد کے ذریعے بھارت سے کشمیر اور بھارتی مظلوموںکا بدلہ لینے کا وقت بھی آنے والا ہے۔ اسی طرح تکمیل پاکستان بھی ہو گا۔اللہ پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنا دے آمین۔