ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد حکومت نے قریباً 85 ہزار قیدیوں کو عارضی طور پر جیلوں سے رہا کردیا ہے۔ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رہائی پانے والوں میں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ان قیدیوں میں قریباً 50 فی صد سکیورٹی سے متعلق مقدمات میں ماخوذ تھے۔جیلوں میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
10 مارچ کو ایران میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے انسانی حقوق جاوید رحمان نے تہران حکومت پر زوردیا تھا کہ وہ جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کردے تاکہ گنجائش سے زیادہ قیدیوں والی جیلوں پر بوجھ کم ہوسکے اور وہاں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں ایرانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
واضح رہے کہ ایرانی حکومت کو کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیراقدامات سے گریز پر تنقید کا سامنا ہے۔قُم شہر میں کروناوائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ ایرانی حکام متاثرین اور مہلوکین کی حقیقی تعداد کو چُھپا رہے ہیں۔گذشتہ جمعرات کو امریکا کی سنٹرل کمان نے بھی ایران پر کرونا وائرس کے کیسوں کی درست تعداد نہ بتانے پر تنقید کی تھی۔
لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس تنقید کو مسترد کردیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا کا پھوٹ پڑنا کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔تاہم اس مہلک وائرس سے ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد میں اضافے کے بعد سے ایرانی عہدے داروں نے قدرے نرم لب ولہجہ اختیار کر لیا ہے اور اب وہ پہلے کی طرح تندوتیز لہجے میں گفتگو نہیں کرتے ہیں۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے سوموار کو ایک بیان میں اپنے ہم وطنوں پر زوردیا تھا کہ وہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اپنے گھروں ہی میں رہیں۔انھوں نے کہا :’’ ہم تمام لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلنے اور سفر پر جانے سے حتی الوسع گریز کریں۔‘‘
واضح رہے کہ صدر روحانی نے قبل ازیں 25 فروری کو یہ کہا تھا کہ ”29 فروری تک ہر چیز اپنے معمول پر آجائے گی۔” وہ کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایرانی شہروں میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کی بھی مخالفت کرتے رہے ہیں۔