عموماً تمام شادیوں کے اندر بنیادی تین ہی رسمیں نبھائی جاتی ہیں، مہندی، بارات اور ولیمہ اسکے علاوہ مختلف علاقوں میں مختلف رسم و رواج ہیں ۔ سننے میں ایسا بھی آیا ہے کہ بعض شادیاں دس، دس دِن تک چلتی ہیں خیر ہم صرف مطلب کی بات کریں گے۔ حلال کاموں میں رَبّ کے ہاں ایک پسندیدہ عمل نکاح ہے اور نکاح کا صحیح معنیٰ یہ ہے کہ میں نے اپنے شریکِ حیات کو اُس کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قبول کیا ہے ۔ جب قبول کر لیا تو اب اُس کے ماضی کو کُرید کُرید کر اُس کی غلطیاں اور بُرائیاں مت ڈھونڈو ورنہ بہت سی برائیاں نِکل آئینگی چونکہ انسان خطا کا پُتلا ہے ہر انسان میں چھوٹی بڑی برائیاں پائی جاتی ہیں مگر آپ حکمتِ عملی سے اُن برائیوں کو ختم کر سکتے ہولیکن ماضی کو اگر کُریدو گے تو بہت سی برائیاں اور غلطیاں نکل آئینگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے شریکِ حیات نے ناصرف توبہٰ کر لی ہو بلکہ اُس کی توبہٰ قبول بھی ہو چکی ہومگر آپ جو برائیوں کے نشان ڈھونڈنے نکلو گے تو آپ کو بہت سی نادانیاں مل جائینگی اور ایسا ہوتے ہی آپ کی زندگی سے سکون نِکل جائے گا پنچھی اُڑ جائے گا۔
ماحول ایسا بنا کر رکھو، بول ایسے بولو کہ ٹوٹی ہوئی مالہ کے جُڑنے کی بھی ترکیب بن جائے۔انسان کا لفظ نسیان سے نکلا ہے جس کے معنی بھولنے والا ہے۔ خطا کرنے والا ہے ۔ اگر ماضی میں جاؤ گے تو مرے ہوئے مُردے بھی اُٹھ کھڑے ہونگے پھر شک ہی شک ہوگا اور مایوسی ہی مایوسی ہوگی خیر نکاح عموماً شادی کی رسومات میں پڑھا جاتا ہے یعنی بارات والے دِن اور بعض دفعہ پانچ، دس، دن پہلے اور کبھی اس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے پڑھ لیا جاتا ہے، ہفتہ دس دن پہلے نکاح پڑھا لیا جائے تو یہ بھی ٹھیک ہے مگر سال سال، دو دو سال پہلے نکاح پڑھ لینا اِتنا مناسب نہیں ہے چونکہ اصل شادی نکاح کا پڑھا جانا ہی ہے ۔ جب نکاح ہوگیا تو عورت کی تمام تر بنیادی ضروریات پوری کرنا مرد کا ضروری حق ہے ۔ اور خُدا نحواستہ عورت اگر بُرا فعل کرتی ہے تو اِس کا گناہ بھی مرد کے سر ہے۔
سو اِس لیے بہتر ہے کہ جتنی احتیاط ہو سکے وہ کر لیں ، نکاح عین موقع پر یا ہفتہ دس دن پہلے مناسب لگتا ہے بانسبت مہینے یا سالوں پہلے نکاح کر لینے سے، آزمائش فقط یہ نہیں کہ آپ تکلیف کے دور سے گزرو اِس کائنات میں آپ کی تخلیق باحصیت اشرف المخلوقات کے ہونا یہ بھی آپ کے لیے بڑی آزمائش ہے چونکہ آپ کو ہر قدم پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے یہ اِس لئے کہ مسلمان کے لیے دنیا بہتر جگہ نہیں ہے ۔ آخرت بہتر جگہ ہے اور کافر کے لیے دنیا بہتر جگہ ہے چونکہ اُس کو کثرت اور بے شمار کثرت دنیا میں ہی ملتی ہے۔ مسلمان تو آزاد نہیں ہے۔ مسلمان اگر آزاد ہے بھی تو پنجرے کے اندر آزاد ہے اور پنجرے کے اندر رہ کر ایک پرندہ کہاں تک اپنی اُڑان بھر سکتا ہے۔ آج میری آپ کی عبادات اور دیگر اچھے اعمال کی کتنی عادت ہے ۔آپ خود اپنا محاسبہ کر لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ پھر دیگر فضول کے گناہوں کو کیوں اپنے سر لیتے ہو، اتنا بوجھ بروزِ قیامت کیسے اپنے سر پر اپنوں کے سامنے اُٹھا کر چلو گے مہندی تو ہندوؤں کی رسم ہے اور مہندی کی رسم کے اندر کیا کچھ ہوتا ہے۔
آپ اِس سے بخوبی واقف ہیں بلکہ کتنی حلاکتیں بھی ہوئی ہیں وہی شادمانیوں کے ترانے غم کے نغموں میں بدل جاتے ہیں اور ایسا اِس لئے ہوتا ہے کیونکہ شیطان فساد پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور وہ اپنی چال میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اُس کی کامیابی کی وجہ گھر میں بجنے والے ڈھول باجے ہیں چونکہ جب گھر میں ڈھول باجے بجتے ہیں تو گھر کی حفاظت کے لئے معمور فرشتے اپنے مسکن کو ، اپنے فریضے کو چھوڑ جاتے ہیں، دور چلے جاتے ہیں اِن ڈھول باجوں کی آواز کو سنتے ہی پھر شیطانی قوتیں، باطل قوتیں ہوتی ہیں اور آپ ہوتے ہو ۔ہم اِس لیے مہندی کی رسم رکھتے ہیں چونکہ ہم کافی دیر سے مسکرائے نہیں ہوتے، ہم ہنسے نہیں ہوتے، ہم نے کوئی ہلا گُلا نہیں کیا ہوتا،اور بہانہ ہوتا ہے دھوم دھام سے شادی کا۔دھوم دھام سے شادی تو یہ ہے کہ آپ ولیمہ میں سو، دو سو لوگوں کے بجائے آٹھ سو لوگوں کو بُلا لیں جن میں غریبوں کی بھی اچھی تعداد ہو وہ بھی ایک وقت کا اچھا لنگر کھا لیں گے۔
ہم بنیادی طور پر خوشی حاصل کرنے لیے مہندی کی رسم رکھتے ہیں ۔ یاد رکھیں وہ تو خوشی کبھی ہو ہی نہیں سکتی جو وقتی ہو بلکہ خوشی یا سکون کی کیفیت تو وہ ہوتی ہے جو آپ کے ساتھ ساتھ چلے، آپ اُس حال سے نکل کر مستقبل کے حال میں جب داخل ہوں تو وہ راحت، سکون اور خوشی کی کیفیت آپ کے ساتھ باقی ہو یہ ہے اصل خوشی ۔ ہندوؤں کی رسم میں بَھلا کون سی خوشی ہوئی یہ تو سراسر وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ یاد رکھیں بلکہ اِس بات کی آپ اکثر و بیشتر مشق بھی کر کے دیکھ لینا سچ اور جھوٹ کا راز آپ کے سامنے کھل جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ خوشی وہ ہے جو آپ کے عمل کے بعد بھی آپ کو خوشی کی لہروں میں ہی رکھے اور وہ خوشی ، خوشی کبھی نہیں ہو سکتی جو آپ کے عمل کے بعد آپ کو یہ احساس کروائے کہ او ہوکیا کر دیا ، وقت بھی گیا اور پیسہ بھی یعنی جس عمل کے بعد آپ کو خوشی نہ ملتی ہو اُس عمل کو چھوڑ دو ۔ وہ جھوٹ ہے اور جس عمل کے بعد بھی خوشی باقی ہے اُس عمل کو پکڑ لو وہی سچ ہے۔
آپ شادی کے تین نکتے اُڑا کر تو دیکھو پھر شادی، شادی نہیں شادی سادی بن جائے گی، پھر آپ کی شادی سستی بھی ہوجائے گی اور آپ سکون اور خوشی کے دائرے میں بھی داخل ہو جاؤ گے ، میاں وہی بچے ہوئے پیسے کسی اور فلاح کے کام میں کسی کی مدد میں لگا دو ، مہندی کی رسم کو ختم کرو جناب ۔ ہاں ختم نہیں کر سکتے تو مہندی کی رسم کو بدلو، اِس رسم کو بدل کر میلادِ مصطفیٰ ﷺ رکھو، سیرت نبی کانفرنس ﷺ رکھو۔ ہاں یہی بہتر اور اچھا بھی ہے اور شادی کے پیغام میں بھی باقائدہ یہ لکھوایا جائے کہ فُلاں دن میلادِ مصطفیٰ ﷺ ہے ۔فلاں دن بارات اور پھر ولیمہ ہے۔ ثواب کا ثواب ہے اور آپ کی شادی کی تقریب بھی یادگار ہوگی۔ اور پھر ساری زندگی کی برکت بھی مِل جائے گی۔ مہندی کی رسم کو بدلو ، ختم کرو مہندی کو ، اور اگر بدل نہیں سکتے ،
ختم نہیں کرسکتے تو جناب کم ازکم اتنا تو ضرور کرو کہ میں مہندی کی رسم میں شامل نہیں ہو سکتا اپنی کوئی مصروفیت ہی بتا دو جناب۔ البتہ شادی کے موقع پر گھر کی خواتین اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا سکتی ہیں بلکہ مہندی لگالینا ہی زیادہ بہتر ہے ۔ مگر مردوں کے لئے کسی قِسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ آدھی آدھی رات یا پوری پوری رات ناچتے نچاتے پھریں اور چھتوں کی دیواریں لرزا کر رکھ دیں یا زمین پر کود کود کر پانی نکالنے کی محال کوشش کرتے پھریں ۔ اللہ اپنی مہربانی سے ہمیں سمجھ نصیب فرمائے اور اللہ اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت عطا فرمائے آمین۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ قاسم علی درویش۔