پہلے اخلاق

Morals

Morals

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ و پیکر رہنے کا حکم دیا ہے اور بطور مثال رسول اللہۖ کے اخلاق کی بلندی مرتبت پر کو بیان کیا اور اسی طرح رسول اللہۖ نے بھی مسلمانوں کو تکمیل اخلاق کی تلقین کی ہے۔صاحب ایمان کے بلند اخلاق کا پیکر ہونا ازحد ضروری ہے خصوصاً جب انسان ایک خاندان سے دوسرے خاندان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے پہلے اپنے اخلاق کو درست کرلینا از حد ضروری ہے۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے حدیث مذکور ہے ،جس میں آپ نے فرمایا کہ ہم نبی اکرمۖ کے ساتھ تھے ہمارے ساتھ کوئی اور نہیں تھا،تو آپۖ نے فرمایا اے نوجوانوں تم میں سے جو کوئی استطاعت کرتاہووہ شادی کرلے،اس کی وجہ سے شرمگاہوں کی حفاظت اور آنکھوں کے گناہوں سے حفاظت کا انتظام ہو جاتاہے،اگر کوئی انسان استطاعت نہیں رکھتاتو وہ روزہ رکھ لے۔علماء احناف جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت کے منصب پر فائز کیا انہوں نے شادی کو واجب قراردیا بعض حالتوں میںجیسے نوجوان میں نکاح کی طرف شدید رغبت ہو اور وہ نان نفقہ کی ذمہ داری بھی اداکرسکتاہو۔بعض آئمہ نے اس کو سنت مئوکدہ قراردیا ہے۔اگر کوئی انسان قدرت رکھتے ہوئے بھی شادی نہیں کرتا تو وہ گناہگار ہوگا کہ اس نے حلال راستہ کو اختیار نہیں کیا۔اگر شادی کرلے تو وہ اجروثواب کا مستحق قرار پائے گا کہ اس نے اپنی عصمت کو محفوظ بنایا اور نسل انسانی میں بڑھوتری کا سبب بنا۔رد المختار میں اس قسم کو مباح کا درجہ کے طورپر بھی لیاگیا ہے کہ انسان عائلی زندگی کا آغاز کرلے۔

بعض علماء نے کہا ہے کہ شادی و نکاح کو اختیار کرنا یہ انسانی کی طبعی ضرورت و حاجت ہے اگر اس کو نبی اکرمۖ نے اختیار کیا تو اس وجہ سے یہ سنت نہیں بن گئی بلکہ یہ مستحب عمل ہے۔ایسی رائے کے حاملین پر رد کیا گیا ہے کہ نبی اکرمۖ نے نکاح سے فرار اختیار کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔آپۖ کا فرمان ہے”جس نے میری سنت سے احتراز کیا وہ مجھ سے نہیں”۔یعنی جس نے میری سنت کو ترک کیا یا اس پر عمل نہیں کیا وہ ہم میں سے نہیں گویا ایسا شخص ہمارے طریقہ پر نہیں اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ وہ کافر ہوجائے گا۔دوسری قسم یہ ہے کہ انسان نہ تو اپنے اندر شادی کی رغبت کو محسوس کرتاہے اور نہ ہی وہ نکاح کے بعد کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کی استطاعت رکھتاہے تو اس صورت میں وہ شادی نہیں کرتا تو اس میں کچھ مضائقہ نہیںاور نہ ہی ترک سنت کا گناہ ہوگابلکہ ایسے شخص کے لئے نکاح عام سنت کا درجہ رکھتی ہے ،یعنی اس پر عمل کرنا لازم نہیں۔

تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے اندر نکاح کی قدرت ہی نہیں رکھتے یعنی وہ مباشرت کے قابل نہیں کسی بھی بیماری کی وجہ سے اور نہ ہی اس کا علاج و حل پاتے ہوں،اور اسی طرح شادی کی ذمہ داری بھی نبھانے سے عاجز ہوں کہ وہ بیوی بچوں کی کفالت کا انتظام کرسکیں وغیرہ کی صورت میں اگر شادی کریں گے تو ایسے لوگوں کا رشتہ ازواج میں منسلک ہوجانا حرام ہے یا پھر مکروہ۔البتہ پہلے طاقت قوت رکھتاتھا مگر کسی حادثہ و بیماری کی وجہ سے عاجز آگیا تو یہ ایک الگ بحث ہے،اس سلسلہ میں موجود تمام آراء کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس صورتحال میں فیصلہ و حکم انسان کے احوال ومعاشرتی زندگی کے جائزہ کے بعد کیا جاسکتاہے۔یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپۖ کا یہ ارشاد گرامی اے نوجوانو! میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔اس مقام پر باریک بینی و دقت نظر سے پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے کہ آپۖ کے فرمان سے مراد حقیقی کیا ہے کیونکہ بہت سے لوگ کم فہمی کی وجہ سے شادی کے مسئلہ کی غلط تشریح کرتے ہیں۔

یہاں ایک اہم بات یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بعض لوگ حدیث نبویۖ کو پڑھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مردوں کو دیا گیا ہے اگرچہ صریح گفتگو مردوں کے ساتھ ہی کی گئی ہے ،مگر اس کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کو زندگی کے دھارے میں بے قیمت چیز نہیں بنایا کہ جب جو مرد چاہے کر گزرے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کربیٹھے،بلکہ حدیث نبویۖ کی روشنی میں بعینہ یہی حکم عورت کو بھی دیا گیا ہے کہ وہ اچھے اخلاق و بہتر تعلیم و تربیت کے بعد بہترین خاوند کے انتخاب میں اپنا حق محفوظ رکھتی ہے۔گویاآپۖ کے خطاب کے مخاطب مردو عورت دونوں ہیں۔مرد کو براہ راست اجازت دی گئی ہے کہ وہ شادی کرنے کی جستجو کرے اور عورت والد و بھائی اور چچا کے ذریعہ سے اپنے لئے مناسب شوہر کو پسند کرے۔

اور ہم بات کرتے ہیں آدمیوں کے گروہوں سے متعلق ۔۔شادی کا مطلب صرف کفالت کرنا اور عورت کی جانب مرد کا میلان رکھنا کافی نہیں۔ بہت بڑے دکھ کی بات ہوگی اگر ہم شادی کو اس طرح سمجھنا شروع کردیں۔ہمیں شادی کے مسئلہ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا اور قرآن کے احکام کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ارشاد باری شانہ ہے کہ اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہاری جانوں سے تمہارے لیے زوج پیدا کیے تاکہ تم اس کے ساتھ گزر بسر کرو اور گذارومہربانی و مودت و رحمت کی زندگی ایک ساتھ۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے مردو عورت دونوں کے لئے کہ شادی کا مقصد جسم کی تسکین و تمازت کا احساس حاصل کرلینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ خوشی و مسرت اور شادمانی کا معاملہ روارکھنا بھی ضروری ہے۔یہ بات بلکل درست نہیں کہ مرد و عورت میں شہوت کی فراوانی ہے تو شادی کرلیں بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اب وہ اس قابل ہے کہ زندگی میں کچھ حکم و فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتاہے۔

شریعت نے عورت کو اپنے لئے شوہر کے اختیار کرنے کا حق دیا ہے ۔یہ بات ضرور ہے کہ مردوں کے مکروفریب سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اسلام نے عورت کی شادی کی ذمہ داری مردوں باپ، بھائی ،چچا پر عائد کی ہے کہ وہ اس کے لئے مناسب رشتہ کا انتظام کریں اس کے باوجود عورت کے پاس قبول و رد کا اختیار کا حق رکھتی ہے۔اس میں حکمت یہ پنہاں ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت و صورت میں عورت کی ذات کو ملامت نہ کرے کوئی کہ اس نے خود اپنے لئے یہ رشتہ چنا تھا۔اگر پھر بھی عورت اپنی زندگی کے خود فیصلہ کرتی ہے تو اس کی ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگی کہ اس نے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کیا۔شادی کا مقصد صرف ایک دوسری جنس کا ہونا کافی نہیں بلکہ مودت و رحمت اور سکون و اطمینان کی زندگی کا حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔رسول اللہۖ نے اسی لئے تلقین کی ہے کہ شوہر و بیوی کے اختیار کرنے میں اچھے اخلاق ،اچھے برتائو اور مضبوط عقیدہ کی بنیاد پر کیا جائے۔ان تمام شرائط کی موجودگی کے بعد آپۖ نے فرمایا کہ اگر تم قدرت نکاح رکھتے ہوئے جسمانی و مالی طورپر تو نکاح کرگزرو۔ہاں وہ لوگ جن کے اخلاق برے ہیں اور معاملات میں اچھے نہیں ہیں تو ان کو کسی صورت شادی نہیں کرنی چاہیے تاکہ وہ فساد پر مبنی عمارت کی تعمیر نہ کر پائیں۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری