اس وقت پوری دنیا میں دہشت کے اژدھے پھن پھیلائے ہوئے ہیں۔خوف وہراس کی فضا قائم ہے۔ہر کوئی ڈراڈرا اور سہماسہما سا نظر آتاہے ۔ چہروں پہ ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اپنوں میں دوریوں کی خلیج پاٹنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اپنوں کو اپنوں سے ڈرلگتاہے۔ ایک دوسرے سے کئی کئی فٹ دورسے ہی سلام کرنے کے حکومتی اقدامات صادر ہوچکے ہیں۔معانقہ تو کجا مصافحہ تک کی ممانعت ہے۔ بیت اللہ کی قربت تک نصیب نہیں۔ مساجدپہلے ہی نوحہ کناں تھیں ، اب توزمیں ڈھونڈتی ہے نمازی کہاں ہیں۔معیشت کی حالت تو پہلے ہی دگرگوں تھی ، اب تو بدسے بھی بدترین ہوتی جارہی ہے۔ ہرسوُ ہوکا عالم ہے۔ایک سو باسٹھ سے زائد ممالک کے باسی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ کاروبار کا پیّہ جام ہوچکا ہے۔ہلاکتوں کی تعداد کا ہندسہ ہزار سے ہوتا ہوا ، ہزاروں تک جاپہنچا ہے۔ بازار سنسان ہیں۔گلیاں ویران ہیں۔ تعلیمی اداروں پر تالے پڑے ہیں۔شادی ہالوں سے لے کر درگاہوں تک کے دروازے بند ہیں۔پوری دنیا کا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ سب اس وائرس یا وبا کی کارستانیاں ہیں، جسے چھوڑا گیا یا جو پھوٹ پڑی ۔ بہرکیف یہ اللہ کا عذاب ہے جو ہم پر مسلط کردیا گیا ہے۔
اس وائرس کو” کورونا وائرس” کا نا م دیا گیا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ یہ ہے کیا بلا، لیکن پھر بھی خوف کے سائے ان کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔کورونا لاطینی زبان کالفظ ہے ۔جس کامعنی تاج یا ہالہ کے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے ، اسی وجہ سے اس کا نام ”کورونا وائرس ” رکھا گیا ہے۔یہ وائرس عام طور پر ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، جبکہ یہ انسانوں میں سانس پھولنے جیسی بیماریوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ عمو ماً اس کے اثرات معمولی اورخفیف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہوجاتے ہیں۔
یہ کورونا کا مختصر تعارف تھا ۔ باقی یہ مسئلہ کہ یہ کہاں سے شروع ہوا،یہ کیسے پھیلایا پھیلتا ہے، اس کی علامات کیا ہیں، اس کے اثرات اور احتیاطی تدابیر کیا کیا ہیں؟اس بارے میںآپ کو شاہراہوں، چوکوں، چوراہوں، سوشل میڈیا، میڈیا اورپرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ہرانسان سے پتا چل جائے گا۔ فی الوقت تو آپ کو یہ جاننا ہے کہ بحیثیت قوم ہمارا رویہ اورردعمل اس حوالے سے کیسا ہے؟ پاکستانی قوم ایسی لاپرواہ واقع ہوئی ہے کہ یہ کسی بھی مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیتی ۔اس کی یہ خامی کبھی کبھی اس کی خوبی بھی بن جاتی ہے ۔جیساکہ کوروناوائرس کے معاملے میں ہواہے۔جب سے یہ وائرس” وائرل ”ہوا ہے تب سے پوری دنیا خوف کی زد میں ہے لیکن آفرین ہے پاکستانی قوم پر،اس قوم نے اس وائرس کی جس طرح دھجیاں اڑا کر ملک وملت سے خوف کو رفع کیا ہے ، یہ اسی قوم کا خاصہ ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم اپنی حکومت کی طرف دیکھیں توہمارے وزیراعظم کا یہ کہنا کہ”یہ وائرس اور بھی پھیلے گا ، گھبرانا نہیں ہے”۔یعنی لوگوں کے ”تراہ”نکال کے بھی کہتے ہیں گھبرانا نہیں۔جیسے ہی یہ خبر پھیلی کے کورونا کی پاکستان آمد ہوچکی ہے ، تو پوراپاکستان حکیم، سائنسدان، ڈاکٹر اور عالم بن گیا،وائرس سے بچائوکے طرح طرح کے ٹوٹکے اور عملیات و وظائف سوشل میڈیا پرگردش کرنے لگے۔ اس وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے تعلیمی اداروں میں جب چھٹیاں ہوئیںتو چٹکلے چھوڑنے والوں نے کہا:تعلیمی ادارے تو اس طرح بند کردیے ہیں جیسے کورونا چائنہ سے تعلیم حاصل کرنے آیا ہو۔وائرس کے پیش نظر چائنہ بارڈربند کیا گیا توجواب آیا: چائنہ سے میک اپ آنا بند ہوگیا ہے ، اب پاکستان میں کورونا کی جگہ ڈرائونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔پہلے طلبا کو چھٹیاں ہوئیں مگراساتذہ کو نہ ہوئیں تو کہنے والے نے کہا:کورونا کا ایچ ای سی سے معاہد ہ ہوگیا ہے ، وہ اساتذہ کو کچھ نہیں کہے گا۔لہٰذا اساتذہ کو چھٹیاں نہیں ہیں۔
دیگر ممالک میں اداروں کو بند کیاگیا تو لوگوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑدیا ۔پاکستان میں چھٹیاں ہوتے ہی ، گلی محلوں سے لے کر بازارں میں رونقیں اور محفلیں سجنے لگیں۔دفعہ ١٤٤ لگائی گئی تو لطیفہ وائرل ہوا:جہاں چار بندے اکٹھے ہونگے ، پولیس انھیں گرفتارکرکے چاروں کو اکٹھاایک جیل میں بند کردے گی۔احتیاطی تدابیر میں سے ایک ماسک کو بھی اہمیت دی گئی ۔ ایک بیوی نے اپنے خاوند سے کہا :میرے لیے بازار سے ماسک لے آنا، میں آپ کو تصویریں بھیج دیتی ہوں۔خاوند نے تعجب سے پوچھا کہ کون سی تصویریں ؟جواب ملا:کپڑوں کی ۔خاوندحیرانی سے:وہ کیوں؟بیوی :میچنگ بھی توکرنی ہے۔
اس وائرس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بتایاگیا کہ کم سے کم ہاتھ ملائیں اور گلے تو بالکل نہ ملیے۔کسی منچلے نے کہہ دیا:پہلے دل نہیں ملتے تھے اب ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔میڈیا نے خوب آہوکار مچائی ہوئی ہے کہ وائرس آگیا، یہ ہوگیا ، وہ ہوگیا۔کسی نے کیا خوب میٹھی تنقید کرتے ہوئے کہا:گھر سے باہر نکلتا ہوں تو سب کچھ نارمل ہے لیکن جب میڈیا دیکھتا ہوں تو لگتا ہے :میںہن نئیں بچدا(میں نے اب نہیں بچنا)۔
خیر یہ چند ایک نمونے تھے جنھوں نے پاکستانی قوم کواس خوف میں بھی تبسم آمیز مسکراہٹوں سے نوازا۔اگرچہ ہمیں اس معاملے کوسنجیدہ لیناچاہیے لیکن اتنا بھی نہیں کہ ہم پر ہروقت ڈرکے سائے منڈلاتے رہیں۔ہاں ایک بات اور،اس کالم کو پڑھنے سے پہلے ہاتھ ضرور دھولیں تاکہ میرے کالم کو ”کورونا وائرس” نہ ہو جائے۔