کورونا وائرس نے اس وقت پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے ،ہر طرف کورونا کورونا کی آہ لگی ہوئی ہے۔ چین کے صوبے ووہان سے شروع ہونے والا موجودہ وائرس کورونا وائرس درحقیقت کورونا کا نیا شکل ہے۔ سرچینگ کے دوران کورونا وائرس کے بارے کچھ معلومات ہوئی جو قارئین کے نذر کرتا ہوں تاکہ قارئین کو بھی کورونا کے نئے شکل کے بارے میں معلوم ہو سکے۔
کورونا وائرس یا کرونا وائرس (انگریزی: Coronavirus) ایک وائرس گروپ ہے، جس کے جینوم کی مقدار تقریباً 26 سے 32 زوج قواعد تک ہوتی ہے۔یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلاً: گائے اور خنزیر کے لیے اسہال کا باعث ہے، اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عموماً اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں ،لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ موجودہ کورونا وائرس جسے کووڈ 19 (COVIDـ19) کا نام دیا گیا ہے،اس سے مراد 2019 میں کرونا وائرس انفیکشن سے پیدا ہونے والا نمونیا ہے۔
کورونا وائرس کے علامات کیا ہے ؟ اس بارے میں ڈاکٹرز کا کچھ یوں کہنا ہیں۔کورونا وائرس کی عام علامات میں نظام تنفس کے مسائل (کھانسی، سانس پھولنا، سانس لینے میں دشواری)، نظام انہضام کے مسائل (الٹی، اسہال وغیرہ) اور کل بدنی علامات (جسے تھکاوٹ اور تیز بخار ) شامل ہیں۔ شدید انفیکشن نمونیہ، سانس نہ آنے یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔ مضمون تحریر کرنے تک میڈیا رپورٹ کے مطابق پوری دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد سات لاکھ کے قریب پہنچ گئی تھی ، جس میں دس ہزار سے زیادہ کی اموات ہوئی ہیں ، جبکہ پاکستان میں پانچ سو کے قریب افراد کورونا سے متاثر ہے ، خوش بختی پاکستان کی ابتک یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا سے صرف ایک شخص کے موت کی خبر آرہی ہے ۔ سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں غیر اعلانیہ لاک ڈائون ہے ۔حکومت سندھ جو شروع روز سے ہی کورونا وائرس کے روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہے ، خاص کر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب ، مگر کورونا وائرس کی وجہ شہر کو بند کرکے متبادل اقدامات نہ کرنا حکومت سندھ کی ناکامی ہے، مثلاً شہر کراچی کے تمام چھوٹے بڑے مارکٹ بند ہے ، جو روزانہ اجرت پر کام کرتے ہے ان کے اور ان کے خاندان کے لیے یہ لاک ڈائون کسی قیامت سے کم نہیں ۔
کورونا وائرس جس شہر کراچی سمیت پورے پاکستان کے تعلیمی ادارے یعنی اسکول ،کالج اور مدارس بند ہیں ، وہی پر شہریوں کاروبار بھی زبردستی بند کیا جارہاہیں۔ کورونا کے خوف سے بہت سی شہریوں نے گھروں سے باہر آنا چھوڑ دیا ہیں، گھر میں راشن کی انبار لگا کر ٹیلی وژن کے آگے سارا سارا دن بیٹھ کے شہر کی حالات سے خود کو باخبر رکھے ہوئے یہ شہری نماز تک کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔
حکومت نے موجودہ صورتحال کے لیے ملک بھر میں علمائے کرام سے تعائون حاصل کیا کہ کسی طرح عوام میں کورونا وائرس سے بچائو کے احتیاطی تدابیر اجاگر کرا سکے ، ورنہ پاکستانی عوام تو کورونا وائرس کو ایک مزاحیہ افواہ قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہی یہ سب عجیب و غریب باتیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کوئی سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کو حکومت کی عالمی دنیا سے امداد لینے کا بہانا قراردے رہی ہیں، تو کوئی اسے اسلام کے خلاف ایک عالمی سازش کہہ کرنت نئے فلسفے جھاڑنے میں مصروف ہے ۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی اس وقت تک کورونا وائرس کو ایک مذاق ہی سمجھ رہی ہیں۔ انہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے علمائے کرام سے تعائون حاصل کیا ۔
کورونا وائرس کو جہاں سوشل میڈیا پر کچھ عناصر اسلام کے خلاف عالمی سازش قرار دے رہے ہیں وہی پر عالم اسلام کے جیدعلمائے کرام (مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان، مولانا طارق جمیل، الیاس قادری اور بھی کئے بڑے نام ہے) اس سے بچائو کے احتیاطی تدابیر کو اپنانے اور حکومت وقت کی پالیسیوں کو اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں نمازوں کو گھروں میں پڑھنے پر زوردیا جارہا ہیں ، مگر پاکستان کے جید علمائے کرام اس کے خلاف ہے ، ہاں البتہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے سنتوں کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے (شرعاً بھی سنتوں کا گھر میں پڑھنے کا زیادہ اجر وثواب ہیں) اورجمعے کے خطبے کو مختصر کرنے کا مگر فرض نماز جماعت کے ساتھ ہی ادا کرنے کا حکم اب بھی برقرار ہے۔
کورونا وائرس کو مذاق نہ سمجھا جائے یہ ایک عالمی وباء ہے ، یہ مصنوعی ہے ،سازش ہے یا قدرتی یہ الگ بات ہے مگر اس وقت پوری دنیا کو اس وائرس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے بچائو کے احتیاطی تدابیر ایمان کی توکل والے جوز پر اثرانداز نہیں ہوسکتا جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا ۔ واضح رہے ہمارا توکل صحابہ کرام سے بڑ کر نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام میںطاعون عماس نامی ایک وباء آئی جس میںکم و بیش 25ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے اور محاذ پر لڑنے والے 35سو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بھی شہید ہوئیں۔ اس وباء کے دوران حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کے محاذ کی جانب جارہے تھے کہ راستے میں ان کو اطلاع ملی کی شام میں ایک وباء پھیلی ہے جس سے لوگوں کی ہلاکتیں ہورہی ہے ، اس لیے آپ وہاں نہ جائے ، آپ پریشان ہو گئے ، دیگر صحابہ کرام سے مشاورت شروع کی گئی ، تو کسی نے اللہ پر توکل کا کہا توکسی نے احتیاط کا ، یوں ان باتوں میں رات ہوگئی اور وہی پڑائو ڈالا گیا۔
صبح کو امیر المومنین کے پا س حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس علاقے میں کوئی وباء پھیلے تو نہ ہی اس علاقے کے لوگ دوسرے علاقوں میں جائے اور نہ ہی باہر کے لوگ اس جگہ جائے جہاں وباء پھیلی ہو، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا سفر شروع کیا ۔ تو اس پتا چلا کے احتیاط توکل کے جوز پر اثر انداز نہیں ہوتا ، مگر کورونا وائرس سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم مسلمان ہے ہمارا یہ ایمان ہے کہ تمام بیماریاں اللہ کی طرف سے ہے اور وہ اللہ جو مجھے بیمار کرتا ہے وہی شفاء بھی دیتا ہے ۔” کورونا سے احتیاط ضروری ہے مگر ڈر صرف اللہ کا ہونا چاہیئے” ۔ صفائی نصف ایمان ہے اس پر عمل پیرا ہونگے تو کورونا شرونا سب دور بھاگے گا، ان شاء اللہ۔۔۔ اللہ تمام انسانوں کے اسے وبائی امراض سے محفوظ رکھیں (آمین)