سماجی و مذہبی سرگرمیوں کا عالمگیر لاک ڈاؤن

Lockdown

Lockdown

تحریر : قادر خان یوسف زئی

کرونا وائرس نے قریباََ پوری دنیا کو متاثر کردیا ہے۔ اس وقت کرونا وائرس سے زیادہ معاشرتی خوف اور اس کے مسلسل پھیلاؤ نے اقوام عالم کو گھروں میں محصور کردیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورۃ النحل میں فرمایا ہے کہ ترجمہ:”اور بتائی اللہ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کے لباس کا“۔دور حاضرہ میں اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو ”بھوک“ اور ”خوف“ ہم خو د اپنے اعمالوں کی وجہ سے مسلط کرچکے ہیں۔ کرونا بیماری ایک قابل علاج بیماری ہونے کے باوجود دنیا بھر میں خوف کی علامت کیوں بن گئی ہے اس پر کئی زایوں سے اہل علم، سیاست دان اور سائنس دانوں نے غور کررہے ہیں، کئی ایسے امور منکشف ہورہے ہیں، جنہیں قیاس آرائیاں قرار دے دیا جاتا ہے اور کئی ایسے معاملات سامنے آنے سے روکے جا رہے ہیں، جن پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔

ڈیوڈ راک فیلر کا کہنا تھا کہ”ہمیں جو چاہیے وہ بڑے بڑے کرائسز ہیں اور دنیا کی تمام قوم ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو قبول کرلیں گی“۔یہ نیو ورلڈ آرڈر کیا ہے، پہلے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ 1992میں سرمایہ دارانہ نظام کے پیشوا اور ان کے پیروکار دنیا میں ایک ایسے مذہب کی بنیاد قائم کرنے کے خواہش مند تھے جس کی بنیاد ”خواہشات“ پر قائم ہو۔ عالمی مالیاتی اداروں سمیت کئی اہم ممالک میں نیو ورلڈ آرڈر پر کام شروع کیا گیا۔لوگوں کو نئے مذہب کے سانچے میں ڈھالنا عالمی ہدف ٹھہرا۔ آداب معاشرت، امور تجارت اور مذاہب سے بیزاری پیدا کرکے نئے مذہب کو رائج کرنا بنیادی مقاصد میں شامل تھے۔نیو ورلڈ آرڈر کو عالمی تناظر میں یہودی کی عالم گیر سازش و منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔”نیو ورلڈ آرڈر“ کے تحت اقوام عالم کی عزت نفس و آزادی کو ختم کرنا اور پھر قوت مدافعت کو اس طرح کمزور کردینا کہ ظلم کے خلاف حساس کا وجود ختم ہوتا چلا جائے۔معاشی نظام میں ممالک کو اپنی پالیسیوں سے جھکانا اور ان کی عوام کو سودی نظام میں جکڑ ناہمارے سامنے کی مثالیں ہیں۔ نیو ور؛لڈ آرڈر کے تحت ”ایک عالمی حکومت اور ایسا نظام جس کو ایک کنٹرول کرکے مستقل غیر موروثی چند افراد کے ماتحت کردیا جائے گا،عالمی وجود پر محدود آبادی کے قوانین لاگو کئے جائیں گے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے خدوخال کو نمایاں کرتے ہوئے ڈاکٹر جان کولیمن نے اپنی کتاب ”نپریٹرز ہائیرار کی‘‘ میں کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ ”جنگ و قحط کے ذریعے آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا۔ صرف حاکم و محکوم ہوں گے۔ ایک عالمی حکومت، پولیس و فوج کے ذریعے تمام سابقہ ممالک کو کنٹرول کیا جائے گا۔ صرف ایک مذہب کی اجازت دی جائے گی اور وہ ایک عالمی سرکاری کلیسا کی شکل میں ہوگا۔ ہر مردوعورت کو شناختی نمبر الاٹ ہوگا۔ تمام صنعتیں ایٹمی توانائی نظام کے ذریعے تباہ کردی جائیں گی، عمر رسیدہ اور دائمی مریضوں کے لئے زہر کا ٹیکہ لازمی قرار دیا جائے گا، کم ازکم چار ارب بے مصرف اور خوراک کے دشمن (خاص طور پر بوڑھے والدین) ختم کردیئے جائیں گے۔“

کرونا بیماری کو عالمی میڈیا جس طرح کوریج دے رہا ہے، اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بیماری کی شدت میں تباہی سے زیادہ خوف پیدا کرنے کا عنصر نمایاں ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 7ارب 40کروڑ سے زائد ہے۔ جبکہ اس وقت کرونا وائرس سے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد صرف دو لاکھ 75ہزار 434 کے قریب ہے۔11 ہزار 399 افراد جاں بحق جبکہ88 ہزار256 صحت یاب ہوچکے ہیں۔(یہ اعداد و شمار 21مارچ 2020 صبح 11 بجےتک کے ہیں)۔ اب اس کے مقابلے میں دیگر بیماریوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہر سال پوری دنیا میں 500 – 350 ملین افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔اسی طرح ہر سال 1 سے 3 ملین افراد ملیریا کے مرض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد افریقی صحرائی علاقوں کے بچوں کی ہے۔ دنیا بھر میں ملیریا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے 90 فیصد افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ ٹی بی ایک وبائی بیماری ہے جو ایک جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس کا درست علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری اپنی ہلاکت خیزی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور اندازہ ہے کہ ہر سال اس کی وجہ سے سترہ سے بیس لاکھ (بعض اعدادوشمار کے مطابق اس سے بھی زیادہ) افراد کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔ایشیا سے ہونے والی جہازرانی کے سبب 1345ء میں یورپ میں بدترین طاعون کی وبا پھیلی جس میں بعض شہروں کے 50 سے 70 فیصد افراد ہلاک ہو گئے۔

مرنے والے بیشتر لوگ بوڑھے اور بچے تھے۔ اندازہ ہے کہ یورپ میں 5 کروڑ افراد اس وبا سے مر گئے۔ تاریخ میں اس سانحہ کو بلیک ڈیتھ کا نام دیا گیا ہے۔1896ء میں انڈیا میں طاعون کی وبا پھیلی تھی جس میں 15 لاکھ لوگ مر گئے۔ اسپینش فلو 1918 اور 1920 کے دوران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس مرض نے لگ بھگ 50 لاکھ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یہ وبا امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیل گئی تھی۔چیچک کا مرض اٹھارھویں صدی میں پہلی بار دنیا کے سامنے آیا تھا، لیکن 1950 میں یہ ایک خوف ناک وبا کی صورت پھیلا اور صرف دو دہائیوں کے دوران تین کروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر کیا۔ طبی سائنس میں ترقی اور علاج معالجے کی سہولیات کے باوجود 1970 تک سالانہ 50 لاکھ افراد اس مرض سے متاثر ہوئے۔خسرہ سے آج بھی دنیا بھر میں انسان متاثر ہوتے ہیں اور ان میں اکثریت کم عمر بچوں کی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2018 اس بیماری نے افریقا اور ایشیا میں ایک لاکھ 40 ہزار انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا۔دنیا بھر میں 1950 تک جذام کی وجہ سے لاکھوں انسان متاثر ہوئے۔ 1990 کے بعد اس میں مسلسل کمی آتی گئی۔پولیو سے 1950 کے بعد سامنے آنے والی اس بیماری سے دنیا میں لاکھوں افراد معذور ہوئے۔۔ایچ آئی وی / ایڈز جدید دنیا میں سب سے مہلک وائرس ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1980 کی دہائی کے اوائل میں اس بیماری کی پہلی بار شناخت ہونے کے بعد سے 36 ملین افراد ایچ آئی وی سے مر چکے ہیں۔ دارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ کینسر ہے۔ 2018ء میں 96 لاکھ لوگ کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔سروے کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں چالیس فیصد اموات دل کی مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔سال 2017 میں خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک کروڑ 77 لاکھ افراد امراض قلب سے موت کے منہ میں گئے ہیں۔

کرونا وائرس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو مختلف بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، یہاں صرف وبائی امراض کا ایک تقابلی جائزہ اعداد و شمار کی مدد سے لیا گیا ہے، کیونکہ کرونا بیماری ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے، لیکن حیران کن صورتحال یہ ہے کہ ماضی بعید و قریب میں خطرناک ترین وبائی امراض نے لاکھوں کی تعداد کو اپنا نشانہ بنایا، لیکن اس وقت دنیا جس قسم کی صورت حال کا شکار ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ معاشی گراؤٹ نے دنیا بھر کو ہلا دیا ہے، لیکن اس کی وجہ کرونا وائرس نہیں، بلکہ اس کے مقابلے میں پھیلائے جانے والا ایک ایسا خوف ہے جس نے تقریباََ ہر ملک کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے۔ انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے عالمی قوتیں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ فوجی بھی ہلاک ھوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی تعداد اس وجہ سے تھی کیونکہ بری، بحری اور فضائی لحاظ سے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہوا۔دوسری جنگ عظیم میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2 کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710000000 شہر اور قصبے۔ 70000 گاؤں اور 32000 کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے 600،000، یوگوسلاویہ کے 1700000 فرانس کے 600000 برطانیہ کے 375000 اور امریکا کے 405000 افراد کام آئے۔ تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

پہلی جنگ عظیم بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازع تھا، جو برطانیہ، فرانس، روس، امریکا، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ، جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور ہنگری کے درمیان لڑی گئی۔ بعد ازاں ترک سلطنت (عثمانیہ) بھی اس میں جرمنی اتحاد کا حصہ بنی۔ جنگ عظیم اوّل میں ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے، یہ تعداد ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ تھی۔ اس جنگ میں دوکروڑ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جب کہ غیر فوجی ہلاکتوں کی تعداد ایک کروڑ30 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور بے دخل کیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عظیم جنگ میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہوا اور ترکی کوجرمنی کے اتحادی ہونے کی وجہ سے جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا اور ترکی کے ہاتھ سے عرب مقبوضات نکل گئیں۔ دوسری جنگ عظیم بھی مغربی استعمار نے شروع کی،3 ستمبر 1939 کو جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا تو برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا، ایک ارب سے زائد فوجیوں کے درمیان دوسری جنگ عظیم ہوئی، 40ممالک جنگ سے متاثر ہوئے،5کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہوئے، صرف 2کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کرکے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دو بڑی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں اور اس کے بعد ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اس وقت تک رہی جب افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین کا سقوط ہوا۔

یہاں یہ امر حیران کن ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان ممالک کو طاقت کا محور بنایا گیا، جن کی وجہ سے کروڑوں انسان ہلاک و زخمی ہوئے۔ مغرب میں فلسفہ طاقت کے تحت کمزور ممالک کے خلاف جارحیت میں بھی انہی قوتوں کا نمایاں ہاتھ ہے۔ امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں شہریوں کو بے گناہ ہلاک کیا۔ دنیا کی واحد طاقت بننے کے لیے اس نے کروڑوں انسانوں کے سروں کے مینار بنا رکھے ہیں اور اب بھی خود کو امن کا چیمپئن قرار دیتا ہے۔ عراق میں دس لاکھ انسانوں کی نسل کشی امریکا کی خون آشام فطرت کا بھیانک باب ہے۔ سوویت یونین افغان جنگ میں تیس لاکھ افغان عوام کی ہلاکتیں روس کے ماتھے کا کلنک ہیں۔ شام، یمن، الجزائر، عراق، افغانستان میں جنگ مسلط کرنے والے سلامتی کونسل کے ممالک کا قیام امن کے لیے کردار حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ عراق میں جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر لاکھوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں نے آج تک عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ خانہ جنگیوں نے عراق کو تقسیم کی راہ پر لگادیا ہے، کُرد اپنی ریاست کو عراق سے الگ کرنے میں جُتے ہوئے ہیں اور عراقی علاقے مسلسل دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث امن کی تلاش میں راندہ درگاہ ہیں۔ داعش کی پرورش کے بعد عراق اور شام کے خطے کو فرقہ وارانہ جنگوں کی آماجگاہ بنادیا گیا ہے۔ ایک جانب روس ہے تو دوسری طرف امریکا، اور دونوں طاقتوں کا نشانہ مسلم آبادیاں اور علاقے ہی بن رہے ہیں۔

جنگوں اور عالمی سازشوں میں ملکہ برطانیہ کا کردار مسلمانوں کی تباہی کے لیے اسرائیلی ریاست کے قیام سے لے کر افغانستان میں شہزادہ ہیری کو بھیجنے تک شرمناک رہا ہے۔ عراق میں امریکا کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے بعد ”اوہ بھول ہوگئی، غلطی ہوگئی، معافی چاہتے ہیں“ کہنے سے کیا وہاں لاکھوں انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔اہم اسلامی طاقت کو دیوار سے لگاکر تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی ان کے منہ پر لگے خون سے درندوں کی پیاس ختم نہیں ہورہی۔ افغانستان میں جارحیت کے 20 برسوں میں لاکھوں انسانوں کو گھروں سے بے گھر کردیا اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اقوام متحدہ امریکا، برطانیہ، روس، فرانس کو بے گناہوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام رہی بلکہ انہیں قتل انسانی کا اجازت نامہ دے کر عظیم جرم کا ارتکاب کیا۔ امریکا جنگ ویت نام میں ناکامی کے باوجود امن کے نظام کو درہم برہم کرنے سے باز نہیں آیا۔ جنگ ویت نام میں ویت نامی اشتراکیوں کے اتحادی سوویت اتحاد اور عوامی جمہوریہ چین تھے جب کہ مخالفت میں امریکا، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ تھے۔ 1959سے30 اپریل 1975تک جاری اس عسکری تنازع میں شمالی ویت نام اور اس کے اتحادیوں کے 11لاکھ77ہزار سے زائد انسان ہلاک اور 6لاکھ سے زائد زخمی ہوئے جب کہ جنوبی ویت نام اور امریکی اتحادیوں کے3لاکھ سے زائد فوجی ہلاک اور 15لاکھ کے قریب زخمی ہوئے، شہریوں کی بڑی تعداد موت کے منہ میں چلی گئی، جس میں جنوبی ویتنام کے 15لاکھ، کمبوڈیا کے 7لاکھ، شمالی ویتنام کے20لاکھ، لاؤس کے قریباً 50 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔

حالیہ حالات و واقعات کو سامنے رکھنے کے بعد صاف عیاں ہے کہ معاشرتی ردِ عمل اور خوف کے پھیلاؤ کے اثر انگیز اثرات سے دنیا کو جان بوجھ کر متاثر کیا جارہا ہے۔ دنیا میں تمام مذاہب کے عبادت و پرستش گاہوں کی بندش، نیو ورلڈ آرڈر کی جانب ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد ”نئے عالمی مذہب“ کے لئے بلعموم مذاہب اور بالخصوص دین اسلام سے نئی نسل کو متاثر کرنا ہے۔ یورپ و مغرب میں خاندانی نظام قریباََ ختم ہوچکا ہے، جنوب و مشرق میں خاندانی نظام تمام تر مسائل کے باوجود قائم دائم رہنے کی کوشش کررہا ہے، جسے ایک منصوبہ بندی کے تحت نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک فی الوقت عارضی معاشی گراؤٹ کا سامنا کررہے ہیں جیسے ترقی پذیر ممالک کو بھاری سود میں قرض دے کر پورے کرلیں گے اس طرح ایک عالمی نظام کے تحت پوری دنیا کے مالیاتی نظام کو شکنجے میں لارہا ہے۔ صحت عامہ کی صورتحال پوری دنیا میں بدترین ہے، جس کا فائدہ سرمایہ داری نظام کے تحت ایسی دوا ساز کمپنیاں اٹھا رہی ہیں جس سے عام بیماری کا علاج ان کی اوقات سے باہر ہوچکا ہے۔

غریب غربت کی سطح سے مزید گرتا جارہا ہے، جس وجہ سے وہ تعلیم حاصل کرنے سے دور ہوتا جائے گا۔دنیا میں بھوک و خوف کے اس عذاب کو عملی طور نفاذ کے لئے کرونا وائرس کی ویکسین و علاج کے نام پر غریب ممالک کی کمر توڑ دی جائے گی۔

اس دجالی سازش کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا اور اس کا مقابلہ دین اسلام کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے، دور حاضر کے مطابق امت مسلمہ و دیگر پسی ہوئی اقوام کو تیار رہنا ہوگا۔ یہ فتنہ کسی فرد کی اختراع نہیں بلکہ ایک ایسی سازشی منصوبہ ہے جو ہر پندرہ یا دس برس بعد لوگوں پر آزمایا جاتا رہے گا، دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کے لئے تیار کیا جانے کی یہ مشق جاری رہے گی۔یہ تجربات انسانوں کے ہاتھوں ہی عذاب کی صورت میں آئیں گے کیونکہ جب تک ایمان کی قوت زندہ رہے گی اُس وقت تک دجالی فتنوں کو روکا جاسکے گا۔ احتیاطی تدابیر اپنی جگہ درست ہیں، لیکن جس طرح قابل علاج بیماری کا خوف پوری دنیا میں منظم انداز میں پھیلایا گیا اور غریب و متوسط طبقے کے ساتھ مذہبی اکائیوں کے یقین و بھروسے کو متزلزل کیا جارہا ہے،وہ سراسر نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا تسلسل ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی