قدرتی آفات اور وبائیں بلا تفریق اپنا کام کرتی ہیں۔اس میں رنگ، نسل حتی کہ مذہب کی تفریق بھی شامل نہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر کلیسے، مندر، مسجدیں اور دیگر مذہبی مقامات ویران ہیں۔میکدوں اور دیگر تفریحی جگہوں پر تالے، بارڈر سیل، پروازیں معطل اور بازار بند ہیں۔ کرونا وائرس دنیاوی عالمی طاقتوں امریکہ، روس، چائنہ، جرمنی اور فرانس سمیت 180 سے زائد ترقی یافتہ و پذیر ممالک میں پھیل چکا ہے۔تین لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور چودہ ہزار سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔نامور سیاسی شخصیات،کھلاڑی اور فنکار بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔بڑی معاشی طاقتیں اور بڑی بزنس شخصیات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ امیر حلقوں اور ترقی یافتہ ممالک کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے اور ایسی آفات کے بعد شاید سنبھلنے کی سکت بھی موجود ہو۔لیکن طبقاتی تقسیم میں غریب تر، غریب حتی کہ نچلے متوسط طبقے ان آفات کی آبناکیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔عالمی غربت 2018کے اعداو شمار کے مطابق دنیا میں 36فیصد لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس وبائی صورتحال میں کروڑوں لوگوں کو غذائی قلط کا سامنا درپیش ہو سکتا ہے۔پاکستان بھر میں چھ کروڑ لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔۔اکثریت خاص کر غریب طبقہ مناسب تعلیم،معیاری صحت اور غذائی ضروریات سے محروم ہو رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بھی خدمات کے شعبہ سے منسلک بہت سے لوگوں کے متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ تاہم یہ ممالک تو اس طبقے کے لئے مختلف امدادی اسکیموں کا اعلان کر رہے ہیں۔بات ترقی پذیر ممالک کی ہو تو ایسے ممالک میں دیگر شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔افریقہ اور ایشیاء میں موجود بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کرونا کی تشخیص کے لئے سہولیات ہی میسر نہیں۔نامکمل سہولیات کے باعث وہاں موجود متاثرین کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔بھارت کو ہی دیکھ لیجئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔تاہم ادھر نامکمل تشخیص کی سہولیات کی وجہ سے صرف چند سو مریضوں کی ہی تشخیص ہو سکی ہے۔ایران میں اس وبا کے پھیلنے کی بنیادی وجہ بھی نامکمل سہولیات ہی ہیں۔پاکستان،ایران، افغانستان اور دیگر کئی افریقی اور ایشیائی ممالک جہاں نامکمل سہولیات کی وجہ سے اس وباء کے پھیلاؤ کے بارے اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔
وہیں ایسے ممالک کے پاس ترقی یافتہ ممالک کی طرح بیک وقت ہزاروں مریضوں کے حصول علاج اور تنہائی (Isolation) کے لئے وینٹی لیٹراور کمرے موجود نہیں۔ اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں صرف1700وینٹی لیٹر موجود ہیں،جو شاید مشکل حالات میں صرف اعلی طبقوں کے ہی کام آسکیں۔ایسے ممالک معاشی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔امدادی رقوم سے کسی حد تک بہتری آ سکتی ہے تاہم ان ممالک میں رقوم میں غبن بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
بات غریب طبقہ میں موجود دیہاڑی دارو ں کی ہو تو اس وباکے باعث تعلیمی ادارے، دفاتر اور ہوٹلوں کے بند ہونے کی بنا پر بہت سے ریہڑی بان، ٹھیلوں والے، ٹیکسی ڈرائیور،باورچی اور دیگر خدمت گار وغیرہ پہلے ہی روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔بہت سی نجی فیکٹریوں اور کارخانوں میں موجود سینکڑوں مزدور کاروبار میں کمی (DownSizing)کا شکار ہو رہے ہیں۔باقی بچنے والے روزگار تو حاصل کر رہے ہیں،تاہم ان کی جانیں جیسے کرونا کے رحم و کرم پر ہیں۔فیکٹریوں اور کارخانوں میں موجود یہ مزدور نہ تو سماجی دوری (Social Distance)اختیار کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کے پاس حفاظتی سامان موجود ہے۔جو اس وباکو اپنے خاندان کے ساتھ معاشرے میں پروان چڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔طبی انشورنس جیسی سہولت ایسے طبقے کی اکثریت کے پاس موجود نہیں۔سفری پابندیاں نہ ہونے کی بنا پر ایسے ممالک میں بسیں اور دیگر مقامی سواریاں کھچا کھچ بھریں ہوئی نظر آتی ہیں۔جو نہ صرف اس طبقے بلکہ معاشرے میں موجود دیگر طبقات کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
فرض کریں اگر روزگار کے ایسے مقامات کو بند کر دیا جائے جو سماجی اکٹھ کا باعث بن رہے ہیں۔ تو کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یاد رکھیں!ایسے لوگوں کی اکثریت ایسی ہے، جن کوطبی بنیاد پر تنخواہ کی ادائیگی(PaidLeaves) سمیت چھٹیاں نصیب نہیں ہوتیں۔ایسے مزدور جن کے پاس روزگار کا حصول روزانہ کی محنت ہی ہے اور دیگر جن کے پاس کسی قسم کی کوئی بچتی رقم (Savings)موجود نہیں وہ جلد ہی قرنطینہ میں بھوک سے مرنے لگیں گے۔ایسے لوگوں کے پاس امیروں کی طرح مہینوں کا راشن خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ممکنات میں سے ہے کہ ایسے لوگ زیادہ دیر خود کو خودکارتنہائی(SelfIsolation)میں نہیں رکھ پائیں گے۔ایسے طبقوں کو ہر سو موت کا سامنا ہے، بھوک سے سسک کر مریں یا جان لیوا وباکو سینے سے لگالیں۔
یونیسیف کے سربراہ کے مطابق دنیا کی چالیس فیصد آبادی معیاری جراثیم کش صابن خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ماسک، صفائی دینے والا مائع(Sanitizer) اور صابن سے محروم یہ طبقات کرونا کا شکار بن سکتے ہیں۔
خدانخواستہ اگر یہ وباجلد ختم نہ ہوئی تو غریب طبقے کے یہ لوگ اپنے رزق کے حصول کے لئے مسلح جدوجہد پر بھی اتر سکتے ہیں۔امیر طبقے کی طرف سے راشن کا ذخیرہ کرنا اور اشیاء کی قیمتوں کا بے جا بڑھنا غریب طبقے میں نفرت کو فروغ دے سکتا ہے۔بھوک اورنفرتیں مل کر جرائم کو جنم دے سکتی ہیں۔دنیا میں بہت سی بدعنوانیوں کی وجہ غربت اور بھوک ہے۔ ایسے میں بہت سی بدعنوانیوں کے بڑھنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔
ایسے طبقوں کے پاس نا مکمل سہولیات کے بعد نامناسب معلومات بھی خطرات کا باعث ہیں۔جعلی طبیب،جعلی تشخیصی مراکز اور مذہبی بہروپیے بھی ایسے لوگوں کو استعمال کر کے ان سے مستفید ہونے کے ساتھ ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ایسے طبقوں کے بچے تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں۔بہت سے لوگوں کے پاس کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی بنا پر آن لائن کلاسوں اور لیکچروں کا حصول بھی ممکن نہیں۔ ایسے لوگ جو غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک میں روزگار کے کے حصول کے لئے موجود ہیں۔امریکہ،برطانیہ اور یورپی ممالک میں موجود ترقی پذیر ممالک کے یہ باشندے نہ تو طبی سہولیات رکھتے ہیں اور غیر قانونی ہونے کی بنا پرنہ ہی اس کے حصول کے لئے تگ و دو کر سکتے ہیں۔امریکی صحافی خرم شہزاد کے مطابق صرف امریکہ میں 13ملین غیر قانونی طور پر آباد لوگ موجود ہیں اور امریکہ میں کسی شخص کو طبی سہولت نہ ہونے کی صورت میں کرونا تشخیص کے لئے 1300امریکی ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔عالمی سطح پر پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے جہاں بیرون ممالک مقیم مزدور روزگار کے حصول کے لئے پریشان ہیں، وہیں انہیں اپنے وطن منتقل ہونے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ایسے میں یہ لوگ کرونا کا آسان حدف ہیں۔
دنیا بھر میں موجود پناہ گزینوں کی بات ہو تو بہت سے ممالک جیسے میانمار اور بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمان، ایران اور پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین اسی طرح ترکی اور یورپ وغیرہ میں موجود شامی پناہ گزین وغیرہ بھی طبی سہولتوں سے محروم ہوکر کرونا کا شکار بن سکتے ہیں۔ اور نامناسب طبی سہولیات کی بنا پر یہ ایک سے دوسرے ملک ہجرت کرکے کرونا کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ایران میں 3ملین افغان مہاجرین موجود ہیں۔ جوسہولیات کی محرومی کی بدولت افغانستان منتقل ہو رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ پناہ گزین پاکستان کا بھی رخ کر سکتے ہیں۔بھارت میں موجود مختلف مذاہب کے مبینہ پناہ گزین اور اس کے زیر تسلط کشمیر کے لوگوں کو بھی طبی سہولیات کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔
ایسے حلقوں میں موجود امراء،تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو آگاہی پھیلانے کے ساتھ غریب اور متوسط طبقوں کی امداد کرنی چاہئے۔لوگ اپنے مذاہب کے مطابق لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں مذہبی رسومات کا فنڈ اس پر خرچ کر سکتے ہیں۔جیسے مسلمان زکواۃ تقسیم کر سکتے ہیں،افطاردعوتوں کی رقم کوخرچ کر سکتے ہیں۔وغیرہ
اگر مذہبی خطیب و سکالرز آگاہی پھیلائیں تو لوگ جلد متوجہ ہوں گے۔مذہبی اجتماعوں میں ہاتھ نہ ملانے کو ایمان کی کمزوری قرار دینے کی بجائے،لوگوں میں آگاہی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ہمیں خود غرضی کو پرے رکھ کر ہر طبقے کی مدد کو یقینی بنانا ہوگا۔لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ احتیاط کتنی ضروری ہے۔خدارا تشخیص اور علاج سے بھاگ کر اپنے پیاروں کی زندگیاں اجیرن مت بنائیں۔حکومتوں کا ساتھ دیں۔حکومتوں کو ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنا ہوں گے، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔
عالمی ادارے امداد ی پیکجز دے رہے ہیں۔اب حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اس صورتحال سے نبردآزما ہوتی ہیں۔یہ امداد غبن کی نظر ہوتی ہیں یا اسے عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا عالمی طاقتوں سے ترقی پذیر ممالک پرسے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔اگر ایسے ممالک اور طبقوں کو کرونا سے نمٹنے کا موقع نہ فراہم کیا گیا،تو پوری دنیا اس عالمی وبا کی لپیٹ سے آزاد نہیں ہو سکے گی۔ذرا سوچئے!