دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے درمیان تمام میٹروپالیٹن شہروں سمیت 80 سے زائد شہروں کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔
کووڈ۔انیس سے اب تک چار سو سے زائد افراد کے متاثر ہونے اور آٹھ اموات کی تصدیق کے بعد بھارت کی بائیس ریاستوں میں 80 سے زائد شہروں کو31 مارچ تک کے لیے لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، ان میں دہلی، ممبئی، کولکاتا، چینئی اور بنگلورو جیسے بڑے شہر شامل ہیں۔
دہلی حکومت نے 31 مارچ تک تمام ٹرینوں، میٹرو ریلویز اور طیاروں کی آمدورفت پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ پرائیوٹ اداروں اور دفاتر کو بھی بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ریاستی سرحدو ں کو سیل کردیا گیا ہے۔
بعض شہروں میں حکومتی ٹرانسپورٹ کارپوریشنوں کی محدود تعداد میں بسوں کو ضروری عملہ کو لانے لے جانے کے لیے چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔
بھارت میں یہ پہلا موقع ہے جب ٹرینوں کی آمدورفت تقریباً دس دنوں کے لیے بند کی گئی ہے۔ ٹرینوں کو بند کرنے کا اعلان ہوتے ہی ریلوے اسٹیشنوں پر افراتفری مچ گئی۔ طبی ماہرین نے ٹرینوں میں اتنی زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کر کے کہا، ”آج سے دہلی میں لاک ڈاؤن شروع۔ میرے دہلی والو آپ نے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر آلودگی کو شکست دینے کے لیے Odd Even کر دکھایا۔ آپ نے ڈینگی کے خلاف بہت بڑی مہم کو کامیاب بنایا۔ مجھے یقین ہے کہ کووڈ۔انیس سے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے آپ لاک ڈاؤن میں تعاون کر کے اس جنگ کو جیتیں گے۔”
جن شہروں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے وہاں بیشتر علاقے سنسان پڑے ہیں۔ ا لبتہ اشیائے خوردونوش اور دواؤں کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف آج صبح متعدد شہروں میں سبزی منڈیوں میں لوگوں کی زبردست بھیڑ دیکھی گئی۔ ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”کئی لوگ اب بھی لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ برائے کرم اپنے آپ کو بچائیں۔ اپنے خاندان کو بچائیں۔ ہدایت پر سنجیدگی سے عمل کریں۔ میں ریاستی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قانون اور ضابطوں پر سختی سے عمل کرائیں۔”
اس دوران کورونا کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے حکومتی ادارہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ریاستوں کو اپنی سطح پر یہ تجزیہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ کن شہروں میں لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ آئی سی ایم آر کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے پھیلنے کا سلسلہ منقطع کرنے کے لیے لاک ڈاؤن ضروری ہے۔
حالانکہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق صرف لاک ڈاؤن کافی نہیں، اس کے لیے عوامی صحت کے ٹھوس اقدامات بھی ضروری ہیں کیونکہ جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا تو اس وبا کے دوبارہ اچانک پھیل جانے کا خطرہ برقرار رہے گا۔
آئی سی ایم آر کا مزید کہنا ہے کہ کل یعنی 24 مارچ تک ہی یہ پتہ چل سکے گا کہ بھارت میں کورونا وبا کمیونٹی سطح تک پہنچ گئی ہے یا نہیں۔ اس کے لیے میتھ میٹیکل ماڈلنگ پر کام چل رہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ اتوار کو ‘جنتا کرفیو‘ کی اپیل کی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے طبی عملہ کے تئیں اظہار تشکر کے لیے کل شام پانچ بجے تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے کی بھی اپیل کی تھی۔ تاہم بعض مقامات پر اس کا مذاق بنادیا گیا۔ لوگوں نے وزیر اعظم کی ‘سماجی دوری‘ بنائے رکھنے کی اپیل کو نظر انداز کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں تالیاں، گھنٹیاں اور تھالیاں بجانے کا اہتمام کیا۔
یہاں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام طبی عملہ کے تئیں ممنونیت کا اظہار سے کہیں زیادہ عوامی رابطہ کو مضبوط کرنے کی مودی کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس سے عوام میں یہ پیغام گیا کہ مودی کے اندر شدید بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہے جو بی جے پی کے انتخابی نعرے’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا ثبوت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت مودی کے سامنے تاہم کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج طبی محاذ پر ہے۔ دوسرا طبی انتظامات کے لیے انتظامی اقدامات کو یقینی بنانا، تاکہ بحران کی حالت میں ملک میں بدامنی پیدا نہ ہو۔ تیسرا چیلنج ملک کو درپیش اقتصادی بحران ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے کچھ دنوں تک ملک میں ‘ایمرجنسی‘ بھی نافذ کرنا پڑے۔ ایسے میں مودی کو عوامی تائید کی ضرورت ہوگی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ‘تالی اور تھالی‘ بجانے کے پروگرام سے طبی عملہ کی کتنی حوصلہ افزائی ہوئی اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا لیکن اس سے وزیر اعظم مودی کو فوری طورپر جو فائدہ ہوا، وہ واضح ہے۔
‘تالی، تھالی اور گھنٹی‘ بجانے کے پروگرام کے دوران ہندو مذہبی تقریبات کی طرح کی شنکھ بجانے اور ویدوں کے جاپ کیے جانے پر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ا س سے ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کے درپردہ مقصد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔