بنگلہ دیش (اصل میڈیا ڈیسک) بنگلہ دیش کی حکومت نے سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو مسلسل گرتی ہوئی صحت کے مدنظرجیل سے رہا کرنے اوران کا علاج کرانے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلہ دیش حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیاء کو انسانی بنیادوں پر چھ ماہ کے لیے رہا کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی مسلسل گرتی ہوئی صحت کا علاج کرا سکیں، تاہم رہائی کا نوٹیفیکیشن ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔
چوہترسالہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور سن 2018 سے جیل میں قید ہیں۔ انہیں بدعنوانی کے بعض کیسز کے سلسلے میں سترہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن ان کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات سیاسی محرکات کے سبب بنائے گئے تھے۔ ان دنوں وہ جوڑوں کے درد کی بیماری میں مبتلا ہیں اور کچھ دنوں سے ان کی حالت کافی خراب ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر قانون انصاف انیس الحق نے خالدہ ضیاء کی رہائی کے حوالے سے بتایا کہ سابق وزیر اعظم کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی ہدایت پر رہا کیا جارہا ہے لیکن ان کی رہائی اس کے شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ پر ہی مقیم رہیں گی اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وہ اپنا علاج ملک کے کسی بھی ہسپتال میں کروا سکتی ہیں لیکن رہائی کی اس مدت کے دوران انہیں بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی۔
خالدہ ضیاء کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ انہیں علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی جائے۔ خالدہ ضیاء کے بھائی شمیم سکندر نے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم اور حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،’’ہمیں اس فیصلے سے بہت خوشی ہے۔‘‘
خالدہ ضیا کے رہائی سے متعلق وزارت داخلہ ایک نوٹیفیکیشن جارے کرے گا تب وہ جیل سے باہر آسکیں گی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں جیل سے کب رہا کیا جائے گا۔
ان کی جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے رہائی کی کوئی اپیل نہیں کی تھی۔ پارٹی کے رہنما امیر خسرو محمد چودھری کا کہنا تھا، ’’خالدہ ضیا ء کو ان کے اہل خانہ کی جانب سے عدالت میں ایک اپیل کے بعد رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بی این پی نے ان کی رہائی کے لیے کوئی درخواست نہیں دی تھی۔ لیکن پھر بھی ہم اسے مثبت انداز میں لے رہے ہیں۔ انہیں تو بہت پہلے ہی رہا کر دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر جیل میں ہیں، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘
خالدہ ضیا کو سن 2018 میں پہلی بار ایک عدالت نے بدعنوانی کے ایک کیس میں قصوروار قرار دیا تھا۔ ان پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے تقریباﹰ ڈھائی لاکھ ڈالر کی رقم، جو ایک یتیم خانے کے لیے بطور عطیہ دی گئی تھی، غبن کرنے کا الزام ہے۔ اس کے بعد اسی نوعیت کے بد عنوانی کے ایک دیگر کیس میں بھی انہیں قصوروار قرار دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کا تعلق ملک کے دو بڑے سیاسی خاندانوں سے ہے اور سن 1971میں ملک کے وجود میں آنے کے بعد سے یہی دونوں خاندان بنگلہ دیش کی سیاست پر حاوی رہے ہیں۔ بطور وزیر اعظم شیخ حسینہ کی یہ تیسری مدت ہے جبکہ خالدہ ضیا سن 1991 سے سن 1996 تک اور پھر سن2001 سے سن 2006 تک وزیر اعظم تھیں۔