بیہار (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے اقدام کے طورپر ملک میں جاری اکیس روزہ لاک ڈاون کے آج پہلے ہی دن لوگوں کو غیر معمولی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا اور ضروری اشیاء کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس کے تناظر میں دوسری مرتبہ کل شب قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ اس وبا کی روک تھام کے لیے پورے ملک کو آئندہ اکیس روز کے لیے مکمل طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کاروبار اور معاشی سطح پر ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا، ’’پورے ملک کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔ یہ بالکل کرفیو کی طرح ہے اور جنتا کرفیو سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔‘‘
نصف گھنٹے کے اپنے خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نے مغربی ممالک کی صورت حال کی مثال دے کر قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کورونا وائرس کے نتائج کس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’آئندہ 21 روز کے لیے گھر سے باہر نکلنا بھول جائیے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو پھر آپ وائرس کو گھر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اکیس دن ذرا طویل وقت معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ اگر ہم نے ان 21 دنوں تک سرکاری احکامات کی پابندی نہیں کی تو آپ کا خاندان اور ہمارا ملک 21 برس پیچھے جا سکتا ہے۔”
اس لاک ڈاؤن کا بیشتر حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے اور اس پر سختی سے پابندی کرائی جارہی ہے۔ جنوبی ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے شیکھر راؤ نے وارننگ دی کہ احکامات کی پابندی نہیں کرنے پر وہ دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ تاہم بعض افراد نے تین ہفتے تک لاک ڈاؤن کوکافی طویل بتایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے ضروری اشیاء کی فراہمی بری طرح متاثر ہوگی جس سے عوام میں افرا تفری پھیل سکتی ہے۔
لاک ڈاؤن کے اعلان بعد سے تمام ریاستوں نے آمدورفت پر پابندی کے لیے اپنی سرحدیں سیل کر دیں جس کا سب سے زیادہ اثر ضروری اشیاء کی سپلائی پر پڑا ہے۔ ریاستوں کی جانب سے عائد پابندیاں غیر واضح ہونے کی وجہ سے اشیاء خوردونوش لے جانے والے ہزاروں ٹرک شاہراہوں پر کھڑے ہیں حالانکہ وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ضروری اشیاء کی فراہمی جاری رہے گی۔
راشن اور دیگر گھریلو اشیاء آن لائن فروخت کرنے والی بعض کمپنیوں کا کہنا ہے کہ سامان منڈیوں تک نہ پہنچنے کے سبب ان کے اسٹورز میں مانگ کے مقابلے میں بہت سی چیزوں کی کمی ہوگئی ہے۔ بعض ریاستوں کے وزراء اعلیٰ گرچہ کہہ رہے ہیں کہ تمام ضروری اشیاء وافر مقدار میں دستیاب ہیں لیکن عوام کو بہت تلخ تجربات ہورہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف باتیں اور وعدے ہیں زمینی سطح پر ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔
ریاست بیہار کے نائب وزیر اعلیٰ سوشیل مودی نے میڈیا سے بات چیت میں عوام کو درپیش پریشانیوں کا اعتراف کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم چاول مغربی بنگال سے لیتے ہیں، دالیں کٹنی اور مدھیہ پر دیش سے جبکہ سرسوں کا تیل ریاست راجستھان سے آتا ہے لیکن ٹرکوں کو سرحد پر روکا جا رہا ہے۔‘‘
موٹر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر کلترن سنگھ اٹوال کا کہنا تھا کہ بیشتر ریاستوں نے سرحدیں سیل کر دی ہیں جس کی وجہ سے ٹرکوں کی آمد و رفت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ ’’حکومت نے ہر چیز بند کر دی ہے، ٹرکوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں ہے اگر نقل و حمل کی چین ٹوٹ گئی تو پھر ضروری اشیاء کی سپلائی بری طرح متاثر ہوگی۔‘‘
وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس کے تناظر میں اپنے پہلے خطاب کی طرح دوسرے خطاب میں بھی عوام کو یقین دلایا کہ ہر ضروری چیز مہیا کی جائے گی۔ لیکن ان کے خطاب کے دوران ہی لوگ دکانوں کی طرف بھاگتے دکھائی دیے تاکہ تین ہفتے کے لیے ضروری اشیاء جمع کر سکیں۔
دریں اثناء وزیر اعظم مودی کی طرف سے سماجی دوری یا سوشل ڈسٹینسنگ اور مذہبی مقامات کو بند رکھنے کی اپیل کی خود ان کے ایک وزیر اعلیٰ نے دھجیا ں اڑا دیں۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے ہندوؤں کے ایک مذہبی تہوار رام نومی کے موقع پر آج ایک مندر میں تقریب منعقد کی جس میں درجنوں افراد نے شرکت کی۔