بیرگامو (اصل میڈیا ڈیسک) اٹلی میں کووِڈ انیس کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشیں لے جانے والے فوجی ٹرکوں کی قطاروں کے دل خراش مناظر نے کورونا وائرس کے عہد میں یہ حقیقت بھی بدل دی ہے کہ ہم انسان موت کا سامنا کس طرح کرتے ہیں اور اس سے کس طرح نمٹتے ہیں۔
شمالی اٹلی کے شہر بیرگامو کی سڑکوں پر ملکی فوج کے ٹرک کئی دنوں سے نظر آ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں میت سوزی کی مقامی تنصیبات تک پہنچانے کا بھی اب کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ دنیا بھر کے انسان گزشتہ چند دنوں سے انٹرنیٹ پر پہلی بار یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اٹلی میں انسانی لاشوں سے بھرے فوجی ٹرک لمبی قطاروں کی صورت میں آہستہ آہستہ حرکت میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس وقت کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وبا کے دور میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ اس طرح مرنے لگیں کہ آخری وقت پر ان کے پیاروں میں سے کوئی ایک بھی ان کے پاس نہ ہو۔ اس وائرس نے یہ رلا دینے والا پیغام بھی دیا ہے کہ اسے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ زندگی کی طرح موت کو بھی پروقار اور بااحترام ہونا چاہیے اور مرنے والوں کے اہل خانہ اور احباب کو تعزیت اور سوگواری کا موقع بھی تو ملنا ہی چاہیے۔
اٹلی میں بیرگامو کے صوبے میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد اس ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ہفتے بیرگامو میں تین سو سے زائد افراد کووِڈ انیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ مقامی حکام کے مطابق ان میں سے بہت بڑی اکثریت مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج تھی اور ان کے پاس ان کا کوئی ایک بھی رشتے دار یا دوست موجود نہیں تھا، جو انہیں تسلی دیتا یا ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں ان کے خوف سے نجات دلانے کی کوشش کرتا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ ہسپتالوں میں تیمار داروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے اور اکثر مریضوں کے اہل خانہ تو خود کسی نہ کسی ہسپتال میں قرنطینہ میں تھے۔
کورونا وائرس اپنے پھیلاؤ اور اپنے مہلک پن کے تسلسل کے لیے جو راستے اختیار کرتا ہے اور جن اصولوں پر کاربند رہتا ہے، وہ اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ابھی تک یہ مہلک جرثومہ ان میں کسی تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نظر نہیں آتا۔
کورونا کے اسی جبر کا حصہ اس کی وجہ سے ہونے والی وہ موت بھی ہے، جو کم از کم عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ تو کبھی نہیں تھی۔ موت بھی ایسی جس میں لواحقین سوگوار تو ہوتے ہیں، ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات بھی اٹھتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔
ان دنوں شمالی اٹلی میں جنازوں اور مردوں کی تدفین میں اتنی تیزی اور وسعت دیکھنے میں آ رہی ہیں، جتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔ مردوں کی تدفین یا آخری رسومات کا عمل ایسا کہ جیسے کوئی لاش ابھی اپنے سوگواروں کے انتظار میں ہی ہو کہ پھر ہر طرف اندھیرا چھا جائے۔
پوری دنیا، خاص کر یورپ میں پہلے تو ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ کسی گھر کے کسی فرد کی موت واقع ہو جائے، تو اقرباء میں سے کوئی تعزیت کے لیے بھی نہ آ سکے۔
جہاں لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہو، وہاں کوئی کسی کے گھر جائے تو کیسے؟ جہاں دکھ مشترک ہونے کے باوجود ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ ہو، وہاں کوئی کسی کو گلے لگا کر کوئی جھوٹی تسلی بھی بھلا کیسے دے سکتا ہے؟ ایسے میں اظہار تعزیت کا واحد راستہ صرف کوئی ٹیلی فون یا ویڈیو کال ہی رہ جاتی ہے۔
آج کی دنیا کی انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے، اس کے باوجود ایسا بھی بھلا کبھی کہاں تھا کہ ہزاروں لوگ مر رہے ہوں اور رابطے، تعزیت اور اظہار افسوس کا واحد راستہ حقیقی کے بجائے صرف ورچوئل دنیا ہو۔ ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہی کورونا وائرس اکیلا اس بات کا تعین کر رہا ہے کہ کون زندہ ہے اور کون زندہ نہیں رہا۔
انسانیت کے اس انتہائی مہلک دشمن کو فی الفور شکست دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سائنسدان نئے کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والے مرض کے خلاف کوئی نہ کوئی ویکسین تیار کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس اور کووِڈ انیس کو شکست دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں۔ ایسا ہو بھی جائے گا۔ لیکن کب، یہ بات کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ شاید جلد ہی۔ تب تک کورونا اپنے مہلک ضابطے خود ہی طے کرے گا۔