جب سے کورونا وائرس نے شہر پر حملہ کیا اور پھر لاک ڈاؤن ہوا تب سے کوشش کر رہاں ہوں جہاں تک ممکن ہو سکے لوگوں کو اس حوالے سے احتیاط برتنے کی آگاہی دیتا رہوں اور خود بھی ہر صورت اس پر عمل کروں ، اس واسطے کبھی کبھی گھر سے باہر کھیلتے بچوں یا پھر مسجد کے باہر کچھ دیر اہلہ محلہ سے اس حوالے سے گفتگو کا سلسلہ کہ کیا کیا احتیاط ہم کر سکتے ہیں وہ کریں ۔ سوشل میڈیا اس حوالے سے سب سے موثر ذریعہ ہے اور الحمداللہ کوشش کرتا ہوں کہ بغیر تصدیق کوئی خبر بھی کسی دوسرے کے علم میں نہ لاؤں ۔ ویسے بھی میری ہمیشہ ہی کوشش رہی کہ ہر وہ چیز لکھوں اور لوگوں تک پہنچاؤں جس کے حوالے سے اگر مجھ سے سوال کیا جائے تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ جواب دے سکوں ۔ کیوں کہ جب آپ کوئی تحریر لکھ کر شائع کردیتے ہیں تو اسے کوئی بھی کہیں بھی حوالہ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ اس لیے بہت محتاط رہتے ہوئے ان دنوں کئی پوسٹیں کیں کئی وڈیو بنائیں کئی عوامی مفاد میں گفتگو کی تاکہ لوگوں میں موجودہ حالات میں شعور پیدا ہو۔
میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ وزیرِ اعظم صاحب کی بات مان لوں اور نہ گھبراؤں مگر روز ہی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو ہی جاتی ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے ۔ کل شام اچانک سعید غنی صاحب کی ایک وڈیو دیکھی جس میں وہ بتارہے تھے کہ انہوں نے اپنا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا جو حیرت انگیز طور پر مثبت آگیا ۔وہ خود تو یہ بات کرتے ہوئے قدرِ پر سکون دکھائی دے رہے تھے مگر ان کی کئی باتوں نے مجھے شدید گھبراہٹ میں مبتلا کردیا۔
سعید غنی صاحب بتا رہے تھے کہ جو بھی کورونا وائرس ہونے کی علامات بتائی جارہی ہیں ان میں سے مجھے ایک بھی محسوس نہیں ہوئی ، یہ بات میرے گھبرانے کے لیے کافی تھی کہ اگر علامات محسوس نہ ہوں اور کورونا وائرس کی تصدیق ہوجائے تو نہ جانے پھر تو وطن میں کتنے ایسے لوگ موجود ہوں گے جن میں کورونا وائرس سرایت کر چکا ہوگا۔ دوسری بات یہ بھی پریشان کر رہی تھی کہ جب علامت محسوس ہی نہیں ہوئی تو کورونا کا ٹیسٹ کرانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ! پھر سوچ بچار کے بعد خود کو سمجھایا کہ سعید غنی صاحب نے تو بطور احتیاط یا رضا کارانہ طور پر اپنا ٹیسٹ کرایا تھا تو اتفاق ہوا کہ ان کا مثبت آگیا اور اگر وہ نہ کراتے تو کچھ دن بعد علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتیں تب تو کراتے ہی ۔ اسی طرح جن لوگوں میں کورونا وائرس سرایت کرچکا ہے ان کو علامات محسوس ہونا شروع ہو جائیں گے تو انہیں قرنطینہ کردیا جائے گا۔
ابھی خود کو مطمئن کیے کچھ ہی لمحے گذرے تھے کہ پھر زہن میں ایک سوال آیا جس سے گھبراہٹ پھر شروع ہوگئی جو اب تک ہے ۔ کہ سعید غنی صاحب نے بطور احتیاط ٹیسٹ کرایا تھا پھر انہوں نے کہا کہ میں اس وجہ سے یہ وڈیو میں انکشاف کر رہا ہوں کہ جو جو میرے ساتھ ان دنوں تھے جن سے میں ملتا رہا وہ بھی احتیاطً اپنا ٹیسٹ کرالیں اور پھر کئی حکومتی شخصیات نے یہ ٹیسٹ کرائے اور الحمداللہ سب کے منفی آئے۔اس طرح اگر بطور احتیاط بغیر علامات ظاہر ہوئے ٹیسٹ ہوتے رہے تو کہیں یہ ٹیسٹ کٹیں جلد ختم نہ ہوجائیں جو کہ اب تک کی اطلاع کے مطابق بہت مہنگی اور کچھ تعداد میں بھی کم ہیں ۔ ایک طرف تو یہ پریشانی گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی کی اللہ نہ کرے اگر وباء نے مزید شدت اختیار کی تو کیا ہوگا کیوں کہ ایک ایک ٹیسٹ کٹ ہمارے لیے اہم ہے تو دوسری طرف اس بات سے بھی شرمندگی ہو رہی ہے کہ بشمول وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ ،تمام ڈاکٹر ، صحت سے متعلقہ شعبے اور حکومتی شخصیات تو عوام کو یہ ہی مشورہ دے رہے ہیں کہ جب تک آپ کو علامات محسوس نہ ہوں ٹیسٹ نہ کرائیں ۔ اس ضمن میں ہمیں ضرور سوچنا ہوگا اور احتیاط سے کام لینا ہوگا تاکہ مستقبل قریب میں ہمارے سامنے اس پریشانی کے عالم میں کوئی نیا بحران جنم لے کر نہ کھڑا ہو جائے۔