پریشان کن ”کارونا وائرس”جس نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔اب ڈرونا وائرس کا روپ دھار چکا ہے۔پوری دنیا میں اِس کے ڈر سے نظام زندگی مفلوج ہواپڑاہے۔کہیں سکول ،کالجز،یونیورسٹیاں ،ہوٹل ،ریستوران ،پبلک وتفریحی مقامات بند ہیں تو کہیں مکمل لاک ڈائون ہواپڑاہے۔ہر شخص اِس ”کارونا وائرس ” سے گھبرایا ہواہے۔ہرطرف ”کاروناوائرس ”کاہی ذکر اور اِس کی ہی صدائیں ہیں۔”کارونا وائرس” سے یہ ہوگیا ،وہ ہوگیاکی خبریں مسلسل گردش کرتی رہتی ہیں۔ہر آن اتنے بیمار پڑے ،اتنے ہلاک ہوگئے کا پتا چلتاہے۔”
کارونا وائرس”سے بچائو کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔”کارونا وائرس”سے کیسے بچا جائے بھی بتایاجارہاہے۔”کروناوائرس”کے اثرات بارے معلوماتی لٹریچر بھی تقسیم کیے جارہے ہیں۔”کاروناوائرس”آگاہی مہم پوسٹر بھی آویزاں کیے جارہے ہیں۔دنیابھر کی طرح پاکستان میں بھی اِس ”کرونا وائرس ”سے نمٹنے کے لیے انتہائی اچھے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ہسپتالوں میں کارونا وارڈاور قرنطینہ سنٹرجیسے یونٹ بنانے کے ساتھ ساتھ ا سپیشل ہسپتال بنانے کی باتیںبھی کی جارہی ہیں۔الغرض یہ کہ ”کروناوائرس ”سے بچنے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔”کاروناوائرس”کے پھیلائو کے ڈر سے ہاتھ نہ ملائو ،ایک دوسرے کو چھوئو نہ ،دومیٹر کے فاصلے سے رہیئے،چار سے زیادہ افراد اکٹھے نہ ہوں،شادی تقریبات پر مکمل پابندی ہے۔دفعہ 144 نافذہے۔بہت سے ممالک میں باجماعت نماز اور جمعتہ المبارک پر ماسوائے حرم و مسجد نبوی پابندی لگادی گئی ہے۔پاکستان میں بھی اجتماعی عبادات پر پابندیاں لگانے کی جانب سُوچاجارہاہے۔ نماز باجماعت کے لیے دومیٹر کا فاصلہ رکھا جائے کہاجارہاہے۔”کرونا وائرس ”سے بچنے کے لیے ہر حربہ ،طریقہ اپنایا جارہاہے۔
اِس بارے مختلف ہدایات بھی دی جارہی ہیں۔”کرونا وائرس ”نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیاہے۔انسانی سوچ وخیال کے مطابق جوبھی تدبیر یں ذہن میں آرہی ،اختیار کی جارہی ہیں۔اِس سے بچنے کے لیے ہرسائنسی طریقہ اورفارمولہ پر غور کیا جارہاہے۔مختلف زاویوں اور طریقوں سے اِسے جانچا جارہاہے۔ خطہ ارضی پر آفت بنی اِس وبائی مرض ”کاروناوائرس”کے مکمل تدارک کے لیے بہت زیادہ مغزماری کی جارہی ہے۔
اِس کے خاتمہ کے لیے دنیا بھر کے ماہرین سے اصلاح مشورہ اور تجاویز بھی مانگی جارہی ہیںمگر اِس کائنات کے خالق و مالک رب العزت اللہ عزوجل کا اِس وبائی مرض بارے کیاکہنا ،اِس متعلق نہیں سُوچاجارہا۔یہ وبائی مراض کیوں آتی ،پرغور نہیں کیاجارہا۔قرآن پاک کے اِس طر ح کے وبائی مرض بارے کیاکہنے ،اِس قسم کے امراض پیدا ہونے اور پھیلنے کی وجوھات کیا ،جاننے بارے نہیں سوچاجارہا۔اِس وبائی مرض کا سدباب کیسے ممکن ،قرآن وسنت سے رہنمائی نہیں لی جارہی۔اِس وبائی مرض سے کیسے بچا جاسکتا ،پر اللہ کا حکم کیا،سمجھانہیں جارہا۔ایسے وبائی امراض کیوں پیداہوتے ،پھیلتے،اسباب نہیں جاناجارہا۔قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں اِس وبائی امراض کی بڑھوتری کی وجہ کیا ،پر قدغنیں نہیں لگائی جارہی۔اِس وبائی مرض کا کنٹرول کیسے ممکن،پرکام نہیں کیاجارہا۔خالق کائنات کے حکموں پر عمل پیرا نہیں ہواجارہا۔اللہ کیاکہتا ،اُسے سمجھا نہیں جارہا۔قرآن پاک کے احکامات کے مطابق اِس مرض کی روک تھام کیسے ممکن ،وہ نسخہ استعمال میں نہیں لایا جارہا۔ہونا تویہ چاہیئے تھاکہ ہم مسلمان اِس پریشان کن ،تکلیف دہ صورتحال میں رب کائنات کے احکامات سے رہنمائی لیتے ،قرآن پاک کی روشن اور واضح تعلیمات سے استفادہ کرتے،اسلام کے سنہری اصولوں کو اپناتے،نماز سے مدد لیتے،صبر اختیار کرتے،سار ی اُلجھنوںاور پریشانی دور کرنے والے رب سے رجوع کرتے۔ہم نے مغرب کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے بس سب کچھ بھول کر اپنی ہی تدابیر یں شروع کردیں۔
رب کیا کہتا ،سے مکمل کنارا کش ہوگئے ۔انسانوں کے کہے کے آگے جھک گئے اور مسلسل جھکے ہوئے ہیں اور رب رحمان کا حکم کیا ،دیکھنا ،سمجھنا اور جاننا گوارہ ہی نہ کیا۔ذراسابھی غور نہ کیا کہ وہ کیا کہہ رہا ،کیا چاہتا اور اُس کے حکم کیا ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ پروردگار کے واضح احکامات کو پس پشت ڈال کر ہم امن ،چین اور سکون سے رہ سکیں۔اچھائی انسان کے حکم ماننے میں نہیںہے بلکہ رب کریم کے حکموں آگے جھک جانے میں ہے جو رب کہے ،اُسے اختیار کرنے میں ہے۔جس سے روک دے ،اُس سے رک جانے میں ہے مگر کیاہے کہ ہمارے ہاں اُلٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے کہ رب کا حکم سامنے ہے مگر اُس پر نظر نہیں۔وبائی مرض کنٹرول سے باہر ہے مگر اُس پر نہ جانتے ہوئے بھی پورافوکس ہے۔وبائی مرض کے اضافے کا سارا سامان خود سے ہی بنائے اور پھیلائے ہوئے ہیں اورروک تھام ذراسی بھی نہیں اور وبائی مرض کے خاتمے کی ہر دوااور دعاکا گلہ گھونٹے ہوئے ہیں۔اللہ عزوجل اور رسول ۖ کے حکموں سے روگردانی کا نتیجہ ایساہی نکلتاہے۔اسلام اور قرآن کے احکامات کو رد کردینے کی سزائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ انسان لاکھ جتن کرلے،ہوتاوہی ہے جو منظور خداہوتاہے۔اُس کا حکم ہی ہر جگہ چلتا اور اُس کا فیصلہ ہی ا ٹل ہوتاہے۔اُس کے سامنے کسی بھی نہ کوئی تدبیر چلتی ہے اور نہ مرضی،ہاں اُس کے حکموں کے آگے جھک جانے میں ہی سب کچھ ہے۔
اللہ کے حکموں کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہی ہر اُخروی کامیابی ہے اور ہر وبائی امراض سے نجات۔یہ وبائی امراض کیوں پھیلتے ہیں ۔حدیث مبارکہ ہے کہ ”جس قوم میںفحاشی آتی ہے اُس قوم میں وبائی امراض پھیل جاتے ہیں”اور یہ وبائی امراض ختم کیسے ہوتے ہیں”اللہ اور اُس کے رسول کے حکموں پر چلتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگناسے”۔قرآنی آیت بھی ہے کہ ”جب میں بیمار ہوتاہوںتو شفاء وہی دیتاہے۔”پس ثابت ہوا کہ ہر مرض کی شفاء اللہ کے پاس ہے اور اُس کے آگے جھک جانے میں ہی نجات ہے مگر افسوس کہ ہم وہ در بھی جہاں اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں بھی بند کرچکے ہیں۔۔۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم رجوع الی اللہ کی بجائے اغیار کے حکموں اور کہے بولے پر اعتبار کیے چل رہے ہیں۔ ہمیںدوا کے ساتھ ساتھ دعا کی زیادہ ضرورت ہے۔نماز ہم بھول چکے۔باجماعت نمازیں ہماری عجیب دومیٹر کی دوری کا نظارہ لیے ہوئے ہے۔قرآن ہماری زندگیوں سے دور ہے۔اللہ اور رسول کے حکم ہم نہیں مان رہے اور رُو رہے ہیں کہ عذاب ہے کہ جان کھائے ہوئے ہے چھوڑتا ہی نہیںہے۔کیسے چھوڑے عذاب ہمارا پیچھا کہ کوئی کام عمل تو ہمارا رب کی جی حضوری والا نہیں رہا،سارے عمل تو طاغوتی طاقتوں والے ہوگئے،رحم اور کرم پھر آئے کہاں سے۔رحمتوں ،برکتوں ،شفائوں کے سارے دروازے توہم خود ہی بند کرکے بیٹھ گئے۔
رحمتوں ،برکتوں، شفائوں کا نزول ہوتوکہاں سے اور کیسے؟تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میںبڑے بڑے عذاب آئے۔کارواں کے کارواں ڈھے گئے مگر رجوع الی اللہ سے سب ٹھیک ہوگیا۔افسوس ہمارا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں۔نمازیں ہمارے پاس نہیں۔قرآن سے ہم دور ہیں۔اخلاقیات کی رتی پاس نہیں رکھتے۔ہمسائیوں سے حسن سلوک روا نہیں رکھتے ۔غیبت و چغلی ہماری رگوںمیں رچی بسی۔قتل وخون ریزی سے ہمارے ہاتھ اٹے ہوئے۔خیر وبھلائی ہم سے رخصت ہوچکی۔زیادتیوں،ناانصافیوں کا گراف ہمارے ہاں بڑھا ہوا۔سود کی یہاںفراوانی۔بددیانتی،بے ایمانی،ہیراپھیری ،دھوکا دہی ،کم ناپ تول ،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ کاہمارے ہاں عروج۔منافقت ہماری گھٹی میں بھری ہوئی۔ایک دوسرے کے بارے میں محبت وچاہت کے مقدس جذبے ہمارے ہاں سے غائب۔غیر تو غیر ،اپنے بھی خفاء ۔ایک دوسرے کی عزت وآبرو کاتحفظ ہمارے ہاں ناپید۔عذاب وآفات نہیں آئیںگے تو اور کیا آئے گا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم ہو اور ہم عذاب سے چھٹکارہ پا جائیں تو ہمیں اللہ کے حکموں پر چلتے ہوئے شعائراسلام کواپنانا ہوگا۔عذاب الہیٰ سے بچنے کے لیے اور رحمت الہی ٰپانے کے لیے یہی ایک ایک راستہ ہے دوسرا کوئی نہیں۔