آج موجودہ حالات میں وطن عزیز ”اسلامی جمہوریہ پاکستان”سمیت پوری دنیا میں بسنے والے تمام افراد اس عالمی وبا ”کرونا وائرس”کے پھیلتے ہوئے اثرات کی وجہ سے پریشان اور افراتفری کی حالت میں مبتلا ہیں اور اس” کرونا وائرس” نے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا ہے،جس کی وجہ سے ہزاروں افراد اس دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔(اناللہ وانا الیہ راجعون)
پریشانی اور افراتفری کے ان حالات میں تمام ممالک کی حکومتوں نے اپنے اپنے شہریوں کی حفاظت اور اس پھیلتی ہوئی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر جاری کی ہوئی ہیں، کہ جن کو اپنا کر اس خطرناک وائرس سے باآسانی محفوظ ہوا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں بھی بعض لوگ حکومتی احتیاطی تدابیر کو مذاق قرار دیتے ہوئے سنی ان سنی کر دیتے ہیں، جو کہ سراسر غلط روش ہے اور ہمارے دین اسلام کے بھی منافی رویہ ہے کیونکہ ہمارے پیارے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس علاقے میں کوئی وبا (بیماری) پھیلی ہوئی ہو اس علاقے کی طرف کوئی سفر نہ کرے اور جو ایسے علاقے میں موجود ہو وہ وہیں ٹھہرا رہے۔ وہاں سے کوچ کر کے کسی اور علاقے کی طرف نہ جائے۔ جیسا کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ملک شام کی طرف رخت سفر باندھا تو راستے میں جب سراغ نامی مقام پر پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ ملک شام میں طاعون کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ یہ سن کر سیدناحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ٹھہر گئے اور سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم کسی ایسے علاقے کے بارے میں سنو کہ وہاں پر کوئی وبا(بیماری) پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جائو اور جب کسی ایسی جگہ پر وبا پھوٹ پڑے کہ تم وہاں موجود ہو تو تم وہاں سے فرار اختیار مت کرو۔ (بخاری و مسلم) یہ سن کر سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس علاقے کی طرف نہیں گئے بلکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا اور وہیں سے واپس آ گئے۔
اس لیے ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ حکومتی پالیسیوںاور احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے کام لیں اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور صبح و شام کے اذکار کا بھی خصوصی طور پر اہتمام کریں،جو کہ ایک مسلمان مومن کا ہتھیار ہے جیسا کہ سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اور شام کے وقت تین مرتبہ ان کلمات کا اہتمام کرے گا،اسے دنیا کی کوئی چیز بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ کلمات یہ ہیں: ”بسم اللہ الذی لا یضر مع السمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم” ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے کہ جس کے نام سے آسمان و زمین کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہی ذات سننے والی اور جاننے والی ہے۔ (ابو دائود)
اسی طرح اگر کسی مریض کو کسی بیماری میں یا کسی تکلیف میں مبتلا دیکھو تو اس دعا کا بھی اہتمام کرو جو کہ سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص کسی کو آزمائش میں مبتلا دیکھے تو اگر وہ ان کلمات کا اہتمام کرے گا تو اللہ تعالیٰ پڑھنے والے کو اس آزمائش سے محفوظ فرما لیں گے، وہ کلمات یہ ہیں ”الحمدللہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا”ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی ، جس میں تجھے مبتلا کیا اور اس نے مجھے اپنے پیدا کیے ہوئے بہت سے لوگوں پر بڑی فضیلت بخشی ہے(سنن ترمذی)۔ذکر و اذکار کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بھی کثرت سے تلاوت کی جائے۔ کیونکہ اس قرآن مجید کو بھی رب العزت نے شفاء کہا ہے، اس لیے کو بھی اپنے شب و روز میں جگہ دی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہم پر رضا مندی ہو۔
آج وقت ہے کہ اگر ہم احتیاطی تدابیر اور ذکر و اذکار کا اچھے طریقے سے اہتمام کریں گے، تو ان شاء اللہ العزیز ہمارے معاشرے، ہمارے پیارے ملک وطن عزیز ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کو اللہ تعالیٰ اس خطرناک بیماری” کرونا وائرس” سے نجات دلا کر محفوظ فرما دیں گے لیکن یہ تب ہی ہو گا جب ہم خوف وہراس پھیلانے کی بجائے ان ”احتیاطی تدابیر” کو اپناتے ہوئے اپنے روز و شب گزاریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کو اور تمام انسانوں کو اس آفت و آزمائش سے محفوظ فرمائے آمین یا رب العالمین۔