سانپ اور مینڈک

Imran Khan and Sardar Usman Buzdar

Imran Khan and Sardar Usman Buzdar

تحریر : روہیل اکبر

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار شروع دن سے یہی کہہ رہے ہیں کہ کرونا سے ڈرنا نہیں بلکہ احتیاط کرنی ہے اپنے آپ کو گھروں تک محدود کرلیں مگر قوم مانی نہیں پھر لاک ڈاؤن کرنا پڑا مگر اب بھی ہم احتیاط نہیں کر رہے گھروں میں بیٹھنا ہمارے لیے مشکل ہے ہم سارا دن مٹر گشت کرنے کے عادی ہیں اشارے توڑنا ہماری فطرت میں شامل ہے بہت مشکل سے ہم نے اپنے آپ کو ہیلمٹ کا عادی بنایا جسکی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں موٹر سائیکلوں کے حادثات کے بعد زخمی ہونے والوں کا رش کم ہوا ہم لوگ اس وقت تک قانون پر عملدرآمد نہیں کرتے جب تک جرمانے اور سزائیں ہمیں نہ دی جائیں بلکل اسی طرح ہم کرونا کے حوالہ سے کی جانے والی حکومتی پابندیوں کو بھی نہیں مان رہے یہی وجہ ہے کہ یہ موذی مرض پھیلتا جارہا ہے کیونکہ ہم اس کو کسی خاطر میں نہیں لارہے جب یہ بڑھے گا تو پھر ہم ڈر کر بیٹھ جائیں مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اگر کسی کو معمولی سا زکام بھی ہوگا تو وہ کرونا کے ڈر اور خوف سے مر جائیگا اس لیے اب بھی موقعہ ہے کہ ہم اس مرض کو سنجیدہ لیں اور احتیاط شروع کردیں ورنہ اس بیماری کا ڈر اور خوف ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا بلکل سانپ اور مینڈک کی کہانی کی طرح ایک سانپ اپنے زہر کی تعریف کررہاتھا کہ میراڈسا پانی نہیں مانگتا پاس بیٹھا مینڈک اس کا مزاق اڑا رہاتھا کہ لوگ تیرے خوف سے مرتے ہیں زہر سے نہیں دونوں کا مقابلہ لگ گیاطے یہ پایا کہ کسی راہگیر کو سانپ چھپ کے کاٹے گا اور مینڈک سامنے آئے گادوسرے راہگیر کو مینڈک کاٹے گا اور سانپ سامنے آئیگااتنے میں ایک راہگیر گزرا اس مسافر کوسانپ نے چھپ کے کاٹا جبکہ ٹانگوں سے مینڈک پھدک کے نکلاراہگیر مینڈک دیکھ کے زخم کھجا کے تسلی سے چل پڑا خیر ہے۔

مینڈک ہی تھا کیافرق پڑتا ہے دونوں اسے دور تک جاتا دیکھتے رہے وہ صحیح سلامت چلا گیادوسرے راہگیر کو مینڈک نے چھپ کے کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کے سامنے آگیامسافر دہشت سے فوری مر گیاجس طرح کرنا سے اموات ہورہی ہیں بلکل اسی طرح دنیا میں ہرروز ہزاروں افراد مرتے ہیں جن کو دیگر امراض ہوتے ہیں یاکوئی بھی مرض نہیں ہوتاجبکہ کرونا کی شرح اموات اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے لیکن اگر ہم نے حکومتی احکامات پر عملدرآمد شروع نہ کیا تو پھر سانپ اور مینڈک والا کھیل شروع ہوجائیگاکیونکہ خوف اور مایوسی سے انسان کی قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے جوکسی بھی بیماری سے لڑنے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے صرف احتیاط سے اب تک کرونا کے ہزاروں مریض صحت یاب ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں کرونا چھوت کا مرض ہے ایک دوسرے سے لگتا ہے احتیاط ضرور برتیں لیکن اس خوف کو ذہن میں بٹھا کے موت سے پہلے اپنی زندگی کوموت سے بدتر نہ کریں جینے کی امنگ خود میں پیدا کریں گے تو کوئی وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کرونا کی بیماری کے متعلق پی ٹی آئی ڈاکٹرز فورم پنجاب کی صدر ڈاکٹر انیسہ فاطمہ ملک نے نشانیاں اور احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔

اگر کسی میں ظاہر ہوں تو اسے فوری طور پر ہیلپ لائن یا ہسپتال رابطہ کرنا چاہیے تاکہ اسکی زندگی کو بچایا جاسکے کرونا کی یہ آٹھ علامات ہم یہاں درج کیے دیتے ہیں 1۔ تیز بخار (لازمی)،2۔ سوکھی کھانسی (لازمی،بلغم والی کھانسی نہیں)،3۔ گلے کا سوج جانا (لازمی)،4۔ سانس لینے میں مسئلہ ہونا (زیادہ تر کیسز میں)،5۔ سر میں تیز درد (زیادہ تر کیسز میں)،6۔ آنکھوں کا سرخ ہونا (زیادہ تر کیسز میں)،7۔ نزلہ زکام (زیادہ تر کیسز میں)،8۔ جوڑوں میں درد، جسم میں درد (زیادہ تر کیسز میں)اگر نزلہ زکام گلا درد ناک بہہ رہی ہے تو کرونا نہیں صرف بخار ہے اور بلغم والی کھانسی تو بھی نہیں نزلہ زکام بہتی ناک کے ساتھ سر درد ہے تو بھی کرونا نہیں۔ بخار کے ساتھ نزلہ زکام، بہتی ناک جسم درد ہے تو بھی کرونا نہیں۔اب ہم آتے ہیں احتیاطی تدابیرکی طرف اورسب سے پہلے اللّٰہ سے رجوع کریں،1۔ گرم پانی کا استعمال کریں جب بھی پانے پیئیں،2۔ نمک والے غرارے یا ڈسپرین والے غرارے،3۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہاتھ دھوئیں صابن سے (الکوحلک سینیٹائزر اتنا بہتر نہیں جتنا صابن)،4۔ گھر میں آتے ہی کپڑے تبدیل کریں،5۔ ماسک عام لوگوں کے لئے ضروری نہیں اگر آپکو کوئی بھی نزلہ زکام ہو تو ضرور استعمال کریں احتیاطاً پہننا بہتر ہے،6۔ کولڈ ڈرنک سے بہت زیادہ احتیاط کریں،7۔ اپنے ہاتھ منہ پر مت لگائیں،8۔ پبلک جگہوں (پارک، مال) پر جانے سے گریز کریں،9۔ جتنا ہو سکے گھر پر رکیں زیادہ پبلک میں جانے سے گریز کریں اور اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔

آخر میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ہمارے علاقائی صحافیوں کی طرف بھی توجہ دیں علاقائی صحافت سے وابستہ10 فیصد خوشحال افراد کے علاوہ نوے فیصد سفید پوش اور محنت کش ہیں جنکی تنخواہ ہے نہ پنشن بلکہ حصول روزگار کے تلخ زرائع ہیں وہ حکومتی طرز پر پنشن یا گریجویٹی سے بھی محروم ہیں جبکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس قوم کو شعور اور آگاہی میڈیا نے دی ہے۔

جان کی پرواہ کیے بغیر، پابند سلاسل ہونے کے باوجود شعور آگاہی حق سچ کی صدا اب بھی فضا میں قائم و دائم ہے توکل اللہ پر کام کرنے والے ان قلم کے مزدوروں کا لاک ڈاؤن سے آمدورفت اور وسائل روزگار مسدود ہو گے ہیں، لیکن ان مشکل ترین حالات میں رپورٹنگ اور خدمت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، علاقائی صحافیوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومت ہمارے ان علاقائی صحافیوں کے لیے بھی کم از کم 15 ارب کا فنڈ مختص کرے ان قلم کے مزدوروں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہ ہے اس لیے اس فنڈ کے اجراء میں صحیح اور مستحق افراد کا انتخاب ضروری ہے تمام علاقائی ورکنگ صحافیوں کا ریکارڈ پریس کلبز اور ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفسز میں موجود ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200