کرونا وائرس کی جنگ سے لڑنے کے لئے جہاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اپنی جانوں کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ حقیقی معنوں میں انہیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے، تاہم اس بدترین حالات میں بلوچستان حکومت کی قربانی کو نظر انداز کرنا حقیقت مندانہ رویہ نہیں ہوسکتا۔ تفتان بلوچستان کے دور افتادہ علاقے ضلع چاغی کا ایک شہر ہے۔یہ پاکستا ن اور ایران کا سرحدی علاقہ کوہِ تفتان بھی کہلاتا ہے، دوسری جانب ایران کا قصبہ میر جاوہ ہے جہاں سے زاہدان تقریباََ پونے گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ تفتان سے کوئٹہ تک کا راستہ 630.4 ہے، جو 8گھنٹے سے زائد کی مسافت پر واقع ہے۔ چین کے بعد ایران بُری طرح کرونا وائرس کی زد میں آیا اور قم کے شہر میں کرونا نے اپنی ہلاکت خیزی کی ابتدا کردی۔ ایران پر امریکا و عالمی اداروں کی جانب سے ایک جانب پابندیاں عاید ہیں تو دوسری جانب ایران بیشتر ممالک کی پراکسی وار کی وجہ سے ایرانی عوام کو درپیش مشکلات کا شکار بھی ہے، جس کا اظہار ایرانی سفیر نے پاکستان کے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھ کر بھی کیا۔ پاکستان نے انسانی بنیادوں پر ایران سے پابند ی ہٹائے جانے کا مطالبہ بھی کیا لیکن امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں عاید کرکے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ پاکستان نے انسانی بنیادوں پر غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے علاوہ ایران سے نرمی کا رویہ اختیار کرنے کے لئے عالمی برداری سے اپیل کی۔
پاکستان ایران تعلقات سرد و گرم رہے ہیں لیکن پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی اسٹریجی کے تحت مثبت انداز میں آگے بڑھانے میں معاون کردار ادا کیا ہے۔کرونا وائرس کی وبا کے بعد جب چین سے دنیا بھر کے ممالک اپنے شہریوں کو فوری واپس لے جا رہے تھے، تو ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ چین سے زیادہ وبا کا شکار کا شکار ہونے جا رہے ہیں، وقت نے ثابت کیا کہ چین نے ہمت ہارے بغیر وبا کو کنٹرول کیا اور اب کرونا کی تباہ کاریوں سے یورپی ممالک بالخصوص اٹلی، امریکا تباہی کے دہانے پر ہے۔اس موقع پر چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا اور پاکستانی طلبا کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی، اُس وقت پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والے آلات بھی موجود نہ تھے۔ وبا کو دنیا بھر میں اس طرح پھیلنے کا کسی عام فرد نے سوچا بھی نہیں تھا، پاکستان نے بھی اپنی توجہ اُن چینی شہریوں پر مرکوز رکھی جو پاکستان میں کسی پراجیکٹ کا حصہ ہیں، چین نے جنگی بنیادوں پر کرونا وائرس کو کنٹرول کیا، لیکن پھر بھی اس میں 50دن سے زیادہ لگ گئے لیکن انہوں نے سخت محنت و اجتماعی قوت کے ساتھ وہ کردیکھا جو اب ایک خواب لگتا ہے۔
جب قم و مشہد میں کرونا وائرس سے ہلاکت کی خبریں آنے لگی تو فوراََ افغانستان، ترکی اور پاکستان نے اپنی سرحدیں بند کردیں۔ چونکہ زائرین کی بڑی تعداد ایران و عراق جاتی ہے، اس لئے آنے جانے کے لئے زمینی راستہ تفتان کا اختیار کرتی ہے، فضائی سفر مہنگا پڑتا ہے اس لئے براستہ کوئٹہ سے تفتان اور پھر زاہدان سے مذہبی زیارتوں کے لئے جانا عام معمولات ہیں، تاہم جب دہشت گردوں کی جانب سے تفتان جانے والے زایرین کو منظم منصوبے کے تحت بسوں سے اُتار کر ہلاک کیا جاتا تھا تو سیکورٹی اداروں نے تفتان کے سفر کو محفوظ بنانے کے لئے سمندری راستے کے ذریعے فیری سروس کی پیش کش کی، لیکن اس پر کوئی پیش کش نہ ہوسکی، کالعدم تنظیموں اور نام نہاد قوم پرستوں کی وجہ سے بلوچستان کے ایسے دور افتادہ علاقوں میں ضروریات زندگی کی ضروری اشیاء و سہولیات میں کمی رہی ہے کیونکہ تفتان میں شدت پسندی کے بھیانک واقعات نے سیکورٹی اداروں کو زائرین و تاجروں کو محفوظ رکھنے کے لئے حفاظتی انتطامات تو کئے لیکن مستقل بنیادوں پر ایسے کوئی اقدامات اس وجہ سے نہیں کئے گئے کیونکہ فوری طور پر امیگریشن کے بعد زائرین و تاجر ایران میں داخل ہوجایا کرتے تھے۔انہیں رہائشی ضروریات کی ضرورت نہیں ہوگی۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے تفتان سرحد پر متعین ایرانی حکام سے کہا ہے کہ وہ ایران سے آنے والے پاکستانیوں کی امیگریشن کلیرنس کچھ دن کے لئے ملتوی کر دیں اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر تفتان وارث خان نے میر جاوہ میں متعین ایرانی حکام سے ملاقات کی اس میٹنگ میں ان پاکستانیوں کی امیگریشن کلیرنس کا معاملہ زیر بحث آیا جو ایران سے پاکستان آنا چاہتے تھے، ایرانی حکام کو بتایا گیا کہ ایران سے آنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو تفتان میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے یہ ایک بڑا بوجھ ہے اگر مزید پاکستانی آتے رہے تو ان کے لئے قرنطینہ میں انتظام کرنا مشکل ہوگا، اس لئے پاکستان کی خواہش ہے کہ چند دن کے لئے امیگریشن کلیرنس کا سلسلہ روکا جائے، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں جتنے بھی مریض ہیں وہ حالیہ دنوں میں کسی نہ کسی وقت ایران سے آئے پھر تفتان میں بہت سے لوگ قرنطینہ کی پابندیوں کو نظر انداز کر کے اپنے گھروں کو چلے گئے، قومی اسمبلی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 6 ہزار پاکستانی زائرین ایسے بھی تھے جن کی سرحد پر سکریننگ نہیں کی گئی شبہ اور امکان ہے کہ ان پاکستانیوں میں ایسے متاثرہ مریض بھی ہوں گے جن کی نہ تو سکریننگ ہو سکی اور نہ ہی انہیں علاج کے لئے کسی ہسپتال کی طرف روانہ کیا گیا یہ سارے لوگ اب تفتان میں ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تفتان میں ایسے انتظامات کئے جائیں کہ ایران سے آنے والوں کی سکریننگ ہو سکے۔
ان حالات میں بلوچستان حکومت کے لئے ایران سے آنے والے زائرین سمیت تاجروں و سیاحوں کو قرنطینہ میں فوری سہولیات مہیا کرنا ناممکن سا تھا، تفتان جیسے علاقے میں ہزاروں افراد کو قرنطینہ جیسا ماحول فراہم کرنا بذات خود ایک بڑا چیلنج تھا، وفاقی حکومت کی سہل پسندی و بد انتظامی کی وجہ سے تفتان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں بدقسمتی سے اضافہ ہوا۔ تاہم بلوچستان کی حکومت تحسین کے قابل ہے کہ انہوں نے تمام صوبوں کو اتنا وقت فراہم کیا کہ وہ اپنے اضلاع میں زائرین و سیاحوں کے لئے قرنطینہ کے بہتر انتظامات کرسکیں تاکہ تفتان سے آنے والی بڑی تعداد کو کنٹرول کیا جاسکے۔
وفاق کی جانب سے تفتان کی صورتحال کا درست اندازہ نہیں کیا جاسکا، جس کی ذمے دار قطعاََ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی، اگر بلوچستان کی حکومت جیسے تیسے ایران سے آنے والوں کو نہ روکتی تو اس وقت تفتان سے پاکستان سے آنے والے زایرین کی نگہداشت کے لئے صوبائی حکومتیں انتظامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ بالخصوص سندھ حکومت نے اس موقع سے جس طرح فائدہ اٹھایا اور بڑی تعداد میں کونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے طبی سہولیات کا بندوبست کیا، وہ دیگر صوبوں کے لئے قابل تقلید مثالرکھتا ہے، گو کہ اس وقت صوبے میں لاک ڈاؤن کرکے چین کی طرز پر وبا کو محدود رکھنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن بدقسمتی سے وفاق و عوام میں سنجیدگی کا عنصر کم پایا جاتا ہے۔ وفاق کے اقدامات سے صوبائی حکومتیں بالخصوص سندھ مطمئن نظر نہیں آرہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ اٹلی و ایران کی طرح صورتحال بدترہوسکتی ہے جس کا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک قطعی متحمل نہیں ہوسکتا۔ عوام حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کو بھی سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں۔پاکستان اس وقت اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے خطے میں کرونا وائرس کے خطرات سے شدید متاثر ہونے والا ملک بنتا جارہا ہے، اس وقت مسلم اکثریتی ممالک میں پاکستا ن تیسرے ایسے ملک میں شمار ہورہا ہے جہاں کرونا وائرس اپنی جڑیں بنا رہا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے جنگی بنیادوں پر حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے، کوئی ایک صوبائی حکومت یا دیگر حکومتیں جزوی لاک ڈاؤن کرکے کرونا وائرس کی وبا کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ جہاں ایک طرف عوام کی غیر سنجیدگی یا حد سے زیادہ خود اعتمادی نقصان کا سبب بن سکتی ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر کی جانب سے ایسے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں جو پاکستان کو دشوار ترین مشکلات کا شکار کرسکے۔ ہمیں بلوچستان و سندھ حکومت سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں غیر سنجیدگی ہے وہاں ترقی یافتہ ممالک کی حالت زار سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔