میری نظروں کے سامنے دو منظر گھوم رہے ہیں اورمیں حیرت میں مبتلا ہوں کہ اصل گلو بٹ حقیقی کردار ہے یا سوچ؟ پہلا گلو بٹ 17جون 2014 کو سانحہ ماڈل ٹائون کے دوران سامنے آیا۔جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔ پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی تھی کہ شیخ رشید جیسے سیاست دانوں کو بھی تشویش ہو چلی تھی کیونکہ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی تھی۔پہلے اس شیر جوان نے ماڈل ٹائون میںمنہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی بعد ازاںپولیس کی زیر نگرانی جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔اس بے مثال کارنامے کے بعد اس گلو بٹ نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔
گلو بٹ کا شجرہ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ تھاوہ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہے۔ کسی کو گمان تھا کہ یہ درمیانے درجے کا نوسر باز ہے اور کوئی اسکو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا تھا۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ‘ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو’ کے غوغے میں شریک ہوگئی ۔پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔
اب آئیے دُوسرے منظر کی طرف ۔چند روز پیشتر ایک ضلعی انتظامیہ اٹک کی جاری کردہ تصویر تھی جس میں ڈی سی اٹک اپنے ہاتھ میںموٹا ڈنڈا اُٹھائے حضرو شہر کے بازار کی گلیوںمیں ایک پولیس اہلکار کی طرح فاتح ہند کے انداز تکبرانہ میں دیکھائی دیتے ہیں۔ دو دن بعد وہی تصویر اورجنڈ ضلع اٹک کے بازار کے نام سے سوشل میڈیا پر چڑھا دی جاتی ہے۔یہ سب ڈرامہ بازی اعلیٰ حکام کو دیکھانے کے لیے ضلعی انتظامیہ خود کروا رہی تھی۔ گذشتہ شب ایک وڈیو مجھ تک پہنچی جس میں اٹک شہر کے اندر یہی ڈپٹی کمشنر علی عنان قمر ہاتھ میں وہی موٹا ڈنڈا اُٹھائے ایک شہری کی گاڑی پر زور زور سے برسا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیںکہ وہ کیوں باہر آیا اور اس سے کاغذات طلب کر رہے ہیں۔
میں کل سے اس ازیت میں ہوں کہ ملک میں حکومت کس کی ہے؟ لاک ڈائون ہے یا کرفیو؟ ملک کے وزیر اعظم لاک ڈائون کو نرمی سے تعبیر کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں بازار سے راشن لے کر جا سکتے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں لیکن بلاوجہ باہر نہ نکلیں لیکن دوسری جانب پولیس اور ضلعی انتظامیہ شہریوں سے ان کا گھر سے نکلنے کا مسئلہ پوچھے بغیر انہیں تنگ کر رہی ہے اور ان کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ڈی سی اٹک علی عنان قمر ڈنڈا ہاتھ میں اُٹھائے پولیس کی معیت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کی طرز پر رعایا پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اگر وڈیو میں نظر آنے والا شہری انتظامیہ کو مطمئن کرنے میں قاصر ہے تو اسے دفعہ 144 کے تحت گرفتار کرلے لیکن کسی شہری کی گاڑی کو نقصان پہنچانے کا اختیار ڈی سی اٹک کو کس نے دیا ؟وہ یوں سرعام ڈنڈا اُٹھا کر اپنے اعلیٰ حکام اور شہریوں کو کیا پیغام دینا چا رہے ہیں؟کیا ڈی سی اٹک قانون سے بالاتر ہیں؟ میرا وکلاء بھائیوں سے بھی یہ سوال ہے؟
یہ وڈیو دیکھنے کے بعد سے میں اس اضطراب میں مبتلا ہوں کہ اصل گلو بٹ ہے کون؟ 17 جون 2014 کو پولیس کی زیر نگرانی ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن کے دفتر کے قریب کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والا یا کرونا وائرس کے لاک ڈائون کے دوران پولیس کی معیت میں شہریوں کو ڈنڈے سے خوفزدہ کرنے والا اور شہری کی گاڑی کو نقصان پہنچانے والااعلیٰ سرکاری افسر۔ یوں لگتا ہے کہ اصل گلو بٹ حقیقی کردار نہیں بلکہ وہ سوچ ہے جو ہمیں گلو بٹ بنا دیتی ہے۔آج گلو بٹ بہت خوش ہو گا، اسکی باچھیں کھلی ہوئی ہوں گی اور وہ اٹھلاتا پھر رہا ہو گا۔ایک وجہ تو اسکی خوشی کی یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں اسکے بھائی بندپینٹ کوٹ میں پیدا ہو چکے ہیں اور وہ آئے دن کسی ہسپتال، سڑک، گلی، عدالتوں غرضیکہ ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیںاور موقعہ پر ہی سستا اور فوری انصاف فراہم کرتے ہیں جسکے بارے میں وطن عزیز کی ہر حکومت غریب عوام کے ساتھ وعدہ کرتی رہی ہے لیکن ستربر سوں میں اسکے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔
سب سے بڑی وجہ گلو بٹ کے خوش ہونے کی یہ ہے کہ اسکے پینٹ کوٹ والے بھائی بند اسکی طرح قانون سے نہیں ڈرتے بلکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے تمام ادارے ان سے ڈرتے ہیں یا انکے حق میں تمام انصاف چلا جاتا ہے۔گلو بٹ اس لئے بھی خوش ہے کہ اس نے عدالت، عوام اور متاثرین سے معافی مانگی لیکن اسکے بھائی بندوں سے یہ سب معافی مانگتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ گلو بٹ کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ اگر اس نے شرافت اپنا لی تو یہ کار خیر کون سر انجام دے گا۔مبارک ہو گلو بٹ تمہیں اگلی کئی دہائیوں تک ایک سے بڑھ کر ایک گلو بٹ ملے گا جو تمہارے بنائے ہوئے کئی ریکارڈ توڑے گا۔ گلو بٹ تو پولیس کی مدد کے لئے نکلا تھا لیکن یہاں نکلنے والے گلو بٹوں کی پو لیس مدد گار بن گئی ہے۔