ثابت ہوا کہ قدرت کا کوئی مقابلہ نہیں۔تخلیق کرنے والا ہمیشہ اپنی مخلوق پر قادر ہوتا ہے۔قدرت سے چھیڑ چھاڑ مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ کورونا نے جدید معاشرے کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس نے انسانی نفسیات کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔
زیادہ تر ایجادات جنگ کی بدولت دفاعی شعبے میں ہی ہوئی ہیں۔نت نئے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر،ٹینک، میزائل،آبدوزیں،اور دیگر جاسوسی اور جوہری ہتھیار وغیرہ سبھی دفاعی شعبے کی ایجادات ہیں۔دیگر شعبوں پر اس شعبے کی برتری کی وجہ دنیا میں بڑھتا جنگی جنون اور اسلحے کے بیوپاری ہیں۔
آج دنیا بھر میں دو ارب سے زائد لوگ ’لاک ڈاؤن‘ کا شکار ہیں،جس میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ یہ وباکب ختم ہوگی؟اور اس کے خاتمے کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی؟مگردنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں۔صحت،سیاست، معیشت سمیت رہن سہن اور رسم و رواج میں بھی بدلاؤ آ سکتا ہے۔سیاحت کی بحالی متاثر ہو سکتی ہے۔آمدورفت میں فرق پڑ سکتا ہے۔خودکارسازی(Automation) اور’ورچوئلازیشن‘کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس وبا نے جہاں زندگیوں کو بکھیر کر رکھ دیا ہے،منڈیوں کو درہم برہم کردیا ہے۔وہیں ممکن ہے کہ یہ وبا حکومتوں کی قابلیت کو بھی بے نقاب کر دے۔
کسی کے نزدیک کورونا کے بعد کا وقت جمہوریت کی بہتری ثابت ہو گا،اور کسی کے نزدیک یہ آمرانہ حکمرانی کے فوائد کو ظاہر کر دے گا۔یہ وہ تنکا بھی ثابت ہو سکتا ہے،جو معاشی عالمگیریت کے اونٹ کی کمر توڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد بے روزگاری اور ملازمتوں سے محرومیت میں بڑی سطح پر اضافہ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ سود پر چلنے والے زومبی ادارے ختم ہو جائیں۔چھوٹے ادارے اور نچلے طبقے بری طرح متاثر ہوں۔ہوسکتاہے کہ قومیت(Nationalism) کو فروغ دیا جائے۔
ممکن ہے کہ دنیا کی آزادی پہلے جیسی نہ رہے۔اداروں کی آزادیاں بھی صلب ہو سکتی ہیں۔امریکی مرکزی عالمگیریت کے رجحان کو کم کر کے چین کی عالمگیری حالت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ممکن ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بغاوتیں جنم لینے لگیں۔ہوسکتا ہے کہ چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو روکا جائے۔ترقی پذیر ممالک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔حکومتیں گر سکتی ہیں۔ دیگر شعبہ جات کے رجحان کو کم کر کے دواساز اور طب کے شعبے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا اس وبا کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔چین کو چار سو کھرب ڈالر سے زائد کے معاشی نقصان کا اندیشہ ہے۔امریکہ میں 80ہزار سے زائد اموات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔یورپ میں ساٹھ سال سے زائد العمر انیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کی اکثریت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ہوسکتا ہے کہ ایک عرصہ امریکہ اور چین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہیں۔دنیا کا ایک حصہ کورونا کو وبا ماننے سے ہی انکاری ہوسکتا ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا میں شاید زیادہ رد وبدل نہ آئے۔جیسے گزشتہ وباؤں سے دنیا نے کچھ نہیں سیکھا،ویسے ہی اس کرونا کے بعد دنیا اپنی معاشی و سماجی سرگرمیوں میں ایسے کھو جائے، جیسے نہ کبھی کوئی وبا آئی ہے اور نہ ہی آئے گی۔بڑی معاشی طاقتیں تھوڑے ردو بدل کے بعد اپنے مقاصد میں جت جائیں۔کمزور ملک مزید معاشی و سماجی کمزوریوں کا شکار ہوجائیں۔جدت کے اس دور میں دنیا دوبارہ سے اپنی مشین جیسی خصوصیات کو بروئے کا رلاکر مشینی خودکار سرگرمیوں میں جت جائے۔زہنوں میں موجود وبا کی ہولناکیوں کو زنگ لگ جائے۔دنیا چندماحول دوست سانسوں کے بعد پھر سے کاروں، مشینوں اور کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں کی سانسیں لینے لگے۔خودغرضی سے بھرے ہوئے منفی رویے پروان چڑھنے لگیں۔جنگی مہارتیں آزمائی جانے لگیں۔جیسے نیویارک ٹائمز کے مطابق آج تک دنیا میں جنگوں کی بدولت 150ملین سے1بلین تک اموات ہو چکی ہیں۔ آلودگی سے دنیا پھر مرنے لگے۔
جیسے عالمی صحت کے ادارے کے مطابق ہر سال4.6ملین لوگ فضائی آلودگی سے مر رہے ہیں۔آلودہ پانی ہی لوگوں کا مقدر ٹھہرنے لگے۔ جیسے عالمی اعداو شمار کے مطابق ہر سال3.5ملین لوگ گندا پانی پینے سے مر رہے ہیں،جن میں 2ملین سے زائد بچے شامل ہیں۔دنیا بھر میں قابل علاج بیماریوں کے علاج سے لوگ محروم رہیں۔ جیسے عالمی صحت کے ادارے کے مطابق 2016میں 15.2ملین اموات دل کے مریضوں کی ہوئی ہیں۔پندرہ سال سے یہ قابل علاج بیماری بڑی سطح پر زندگیاں ختم کر رہی ہے۔ کینسر، حادثات سمیت کتے،سانپ اور مچھر کے کاٹنے سے لاکھوں لوگ مر تے رہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دوران حمل اور زچگی سے ہونے والی پچیدگیوں سے ہر سال تین لاکھ سے زائد عورتیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔یونیسیف کے مطابق 2200بچے ہر دن غربت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ دنیا میں لوگ یونہی پہلے کی طرح غربت و بے روزگاری سمیت بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکا ر ہوتے رہیں۔
دنیا کا مثبت اور تعمیری پہلو۔دنیا نے دیکھ لیا ہوگا کہ کیسے امریکہ سمیت دیگر دنیاوی طاقتیں اس وبا کے سامنے بے بس ہیں۔دنیا سمجھ جائے گی کہ چودہ ہزار کے لگ بھگ جوہری ہتھیاروں نے ہمیں خوف اور بدامنی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔تاریخ میں درج ہوگا کہ عالمی طاقتیں وینٹی لیٹرز کی کمی کا شکار ہوئیں۔دنیا میں امریکہ نے 2017میں صحت پر اپنی جی ڈی پی کا8.5فیصد استعمال کیا۔امریکہ دنیا میں صحت پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔
صومالیہ دنیا میں صحت پر سب سے کم خرچ کرتا ہے۔پاکستان نے2016-17کے مطابق صحت کے لئے جی ڈی پی کا 0.91فیصد خرچ کیا۔دنیا میں بہت سے ممالک صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔شاید بعد کی دنیا صحت کے شعبے کو ترجیح دینے لگے۔لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولیات کے ساتھ اصولوں کے بارے آگاہی میسر ہو۔لوگوں کو قوت مدافعت قائم رکھنے کے مواقع میسر ہوں۔غذائی قلت اور ناقص غذائیت والے کھانوں سے ہونے والی اموات میں کمی واقع ہو۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص ناقص غذا کا شکار ہے۔صرف امریکی ریاستوں میں ہر سال چھ لاکھ سے زائد لوگ ناقص غذا کا شکار ہورہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ کورونا کے بعد سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ جائے،تباہ حال معاشی اور صحت کا بدتر نظام مثبت تبدیلی کی راہ پر گامزن ہونے لگے۔سب جانتے ہیں کہ،کیسے صنعتی انقلاب نے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔شاید وبا کے بعد کی دنیا ماحول دوست اقدامات کو فروغ دے۔جس میں صنعتی پابندیاں بھی لاگو ہوں۔زرعی رجحان کو فروغ دیا جائے۔ماحولیاتی دوست (Eco-Friendly) نظام کے متاثر ہونے سے جو تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں ان کے بارے میں دنیا سوچنے کے ساتھ عملی اقدامات کو بھی فروغ دینے لگے۔دنیا اپنی آنے والی نسلوں کے لئے آکسیجن سے بھرپور اوردیگر کاربن و نائٹروجن گیسوں سے پاک ماحول فراہم کرے۔ ماحول دشمن پالیسیاں ترک ہوں تا کہ دنیا میں موجود دیگر مخلوقات بھی سکھ کا سانس لیں۔
نیو یارک میں تحقیقات کے مطابق کاروں اوردیگر گاڑیوں سے پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ کی فضا میں مقدار حیرت انگیز طور پر50فیصد کم ہوئی ہے۔جب کہ ماحول میں درجہ حرارت بڑھانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں 5-10فیصد کمی واقعی ہوئی ہے۔نیچر ہیرالڈ میں شائع شدہ ایک مکالے کے مطابق موجودہ لاک ڈاؤن کی بدولت اوزون کی تہہ صحت یابی کی طرف گامزن ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وبا کے بعد دنیا امن کو فروغ دے۔دنیا بھر میں موجود تنازعات کو حل کیا جائے۔انسان کو انسان سے دفاع کی ضرورت نہ رہے۔انسان اپنی بنیادی ضرویات پر خرچ کرنے لگے۔وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو۔طبقاتی تقسیم سمیت غربت کو ختم کیا جائے۔معاشی ڈھانچوں کو مضبوط کیا جائے۔انسان بلاتفریق اور دنیاوی خوف کے بغیر ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگیں۔ایک نئی امید ہے جو شاید پوری ہوجائے۔جس سے کسی ایک طبقے کی بجائے پوری انسانیت کی فتح ہو۔
وباؤں کا سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اگلی وبا اس سے بڑھ کر مہلک ہو۔اس وباء نے ہمیں باور کرا دیا ہے کہ کیسے ہم ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔امید کرتے ہیں کہ دنیا انتہا پسندو امن دشمن لیڈروں سے نجات حاصل کر لے گی۔لوگوں کے رویوں،برداشت اور رہن سہن میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔اور دنیا میں متوقع وباؤں کو افسانہ سمجھنے کی بجائے مدنظر رکھا جائے گا۔