ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،تاحال بہتری کی امید کہیں نظر آتی دیکھائی نہیں دے رہی ،کبھی کبھی تویوں لگنے لگتا ہے کہ دنیا اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے ۔دنیا کی طاقت وار قوتیں بھی کرونا وائرس کے سامنے بے بس ہو چکی ہیں ۔ان کی ساری طاقت سارا غرور ایک وائرس کے سامنے زمیں بوس ہو چکا ہے۔پاکستان میں بھی حالات دن بدن مخدوش ہوتے جارہے ہیں ۔ ملک میں لاک ڈاون نے بھی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کر رکھا ۔غریب آدمی کی پریشانی اور فکر میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ۔اسے اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک فکر ستا رہی ہے۔دوسری طرف حکومت بھی اپنے ہاتھ پاوں مارنے میں لگی ہے ۔اگر مکمل کرفیو لگاتی ہے تو لوگ بھوک سے مرتے ہیں اور اگر کرفیویا لاک ڈاون نہیں کرتی تو لوگ کرونا کا شکار بنتے ہیں ۔ایسے میں وزیراعظم صاحب نے کرونا ریلیف فنڈ کا آغاز کیا ہے ۔اورساتھ ہی ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان بھی کیا ۔میری ناقص رائے میں یہ فیصلہ اتنا مناسب نہیں ہے ۔چلیں ریلیف فنڈ کی حد تک تو ٹھیک ،مگر ٹائیگر فورس بنانے سے کئی مسائل جنم لیں گے ،سب سے پہلے تو اس کام میں وقت کافی ضائع ہو جائے گا ،جوv اس فورس کا حصہ بنے گے وہ ان ٹرینڈ ہوں گے اوران کو ٹرینڈ کرنے کے لئے بھی وقت درکار ہوگا ،اگر یہی کام سرکاری سکولوں کے ٹیچرز سے لیں تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ سکول ٹیچرز پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔اور وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں ۔یاپھر یہ کام پولیو،ورکرز سے بھی لیا جاسکتا ہے جو پہلے ہی گھر گھر جا کر پولیوں کے قطرے پلا رہے ہیں وہ علاقوں گلی محلوں سے اچھی طرح واقف بھی ہیں ۔ٹیچرز یا پولیوہیلتھ ورکرز کو ٹریننگ کی بھی اتنی ضرورت نہیں ہوگی۔دوسرا ٹائیگرز فورس میں زیادہ شمولیت حکمران جماعت کے پارٹی کارکنوں کی ہوگی جس سے بھی مسائل میں اضافہ ہوگا پارٹی کارکن اپنے ہی پارٹی کے لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کریں گے اس سے محرومی اور سیاسی اختلاف میں مزید شدت آئے گی۔
اس فنڈ کے قیام پر بھی کئی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔جو کافی حد تک بنتا بھی ہے ۔2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد بھی ملک سے اور مختلف دیگر ممالک کی جانب سے جو امدد دی گئی وہ اتنی تھی کہ اگر اس کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جاتی تو ،متاثرہ علاقے نئے سرے سے بنائے جا سکتے تھے مگر ابھی تک زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کی حالت یہ کہ وہ اب بھی کمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔وہ فنڈ کہاں سے آئے کہاں چلے گئے عوام ابھی تک بے خبر ہے ۔اس کے علاوہ بھی قرض اتارو، سیلاب اور دیگر مواقعوں پر ریلیف فنڈ قائم ہوتے رہے مگر اس فنڈ کے اثرات کبھی بھی عام عوام یا متاثرہ لوگوں تک نا پہنچ سکے ،کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں ملک میں ڈیم بنانے کے لئے بھی فنڈ قائم ہوا دنیا بھر میں اس کی کمیپین چلائی گئی اور اربوں روپے فنڈ اکھٹا بھی ہوا ،یہاں تک کہ یوٹیلیٹی بلوں میں بھی ڈیم کا فنڈ وصول کیا جاتا رہا،مگر نا تو کہیں ڈیم بنا اور نا ہی آج تک پتا چلا کہ وہ پیسا کہاں گیا ۔جب ہم نارمل حالات میں بھی ان فنڈز کا ٹھیک استعمال نہیں کر سکے تو، موجود حالات میں تو یہ بات اورزیادہ مشکل ہو جائے گی۔
قارئین کرام!آج پاکستان کو اُن لوگوں کی ضرورت ہے۔ کہ جب ایک صوبے میں حکومت بنانی تھی تو ان کے جہاز کے ٹائر زمین پر ہی نہیں لگتے تھے جنہوں نے سینٹ الیکشن جیتنے کے لئے نوٹوں کی بوریاں کھول دی تھیں ۔جی جی بالکل ،آج ملک کو شریفوں ،ترینوں ،ہاشوانیوں اور ملک ریاض ،اعظم سواتی جیسے مالدار اور سرمایہ دار لوگوں کی ضرورت ہے ۔پیسہ جن کی ہاتھوں کی میل ہے ۔لیکن آج یہ لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پا رہے ۔ہمارے سیاستدان جو اپنی الیکشن کمپین پر تو پیسہ پانی کی طرح بہا تے ہیں ۔مگر حیرت ہے مشکل کی اس گھڑی میں بھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہے ۔عوام تو لاک ڈاون کی کی پروا بالکل بھی نہیں کر رہے ،ہاں البتہ ہمارے سیاستدان لاک ڈاون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے گھروں میں بیٹھے ہیں ۔اور جو نظر آ رہے ہیں وہ مشکل کی اس گھڑی میں بھی سیاست کرتے ہی نظر آ رہے ۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آرہے۔یہ وقت متحد ہونے کا ہے نا کہ سیاست کرنے کا ۔ہر کسی کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری اداکرنے کی ضرورت ہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بار بار حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کرونا ٹیسٹ فری کئے جائیں ،وہیں ان کی اپنی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ شریف فیملی کے زیرانتظام چلنے والے سبھی ہسپتالوں کو عام عوام کے لئے تب تک وقف کر دیں جب تک اس وباء سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوجاتا ،اگر ایوان میں عمران خان قائد ایوان ہیں تو شہباز شریف بھی اسی ایوان کے قائد حزب اختلاف ہیں ۔خدرا ایک ہر بات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں یہی وقت کا تقاضہ ہے۔
پاکستان میں صاحب ثروت لوگوں کی کمی نہیں، اور اس وقت ملک و قوم ضرورت بھی ہے کہ ملک کے صاحب ثروت آگے بڑھیں اور دکھی اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنیں ۔بہت سارے صاحب ثروت لوگ اپنی مدد آپ کے تحت میدان عمل میں آ چکے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ ہر وقت ملک و قوم کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں ۔جو انسانیت کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ان میں ایک نام زبیر احمد انصاری کا بھی ہے جن کا تعلق لاہور سے وہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں تاجر رہنما بھی ہیں اور ایک معروف ادبی تنظیم آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی سر پرستی بھی کرتے ہیں۔ مگر خود کو وہ صرف ایک پاکستانی ہی کہلوانا پسند کرتے ہیں انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 15 ہزار خاندانوں کو راشن ان کے گھر وںتک پہنچانے کا ذمہ اپنے سر لیا ہے۔زبیر انصاری اپنے اسلاف انصار کے طریقے پر چلتے ہوئے انصار مدینہ کی سنت پر عمل پہرا ہیں۔
موجودہ حالات میں زبیر انصاری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ وہ 15000 خاندانوں تک راشن پہنچائیں گے اور پہنچا بھی رہیں ہیں۔یوں تو وہ یہ خدمت عرصہ دراز سے سر انجام دیتے چلے آ رہے ہیں ۔وہ یہ خدمت ایک منظم طریقے سے سر انجام دیتے ہیں ۔ان کے پاس ایک مکمل طریقہ کار ہے ۔ان کے پاس ہزاروں ضرورت مند خاندانوں کا ڈیٹاموجود ہے جو انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اکھٹا کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ زبیر انصاری جیسے لوگوں سے رابطہ کرے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ۔اور ملک کے دیگر مخیر حضرات کو بھی زبیر انصاری کی تقلید کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئیے ۔ اس کے علاوہ ہر شخص کو اپنی حیثیت کے مطابق اتنا حصہ ضرور ڈالنا چاہئیے ،جتنا حصہ مصر کی بوڑھی اماں نے ہاتھوں میں سوتر کی اٹی تھامے ہوئے حضرت یوسف کے خریداروں کی لائن میں لگ کر خود کو اس لسٹ میں شامل کروا لیا تھا جو روز محشر حضرت یوسف کے خریداروں کے نام سے پُکاریں جائیں گے ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔