کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) سماجی دوری کے اس دور میں سوشل میڈیا دنيا میں معلومات کا بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن ماہرین کے نزدیک اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہيں۔
سوشل میڈیا ایک طرف سماجی رابطے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے تو دوسری طرف یہ خدشات بھی ہيں کہ صارفين سوشل میڈیا کے ”بليک ہول‘‘ میں نہ گر پڑيں۔ کورونا وائرس کے بحران کے تناظر ميں سوشل میڈیا نے نہ صرف انتباہی نظام کے طور پر اہم کردار ادا کيا ہے بلکہ عام لوگوں سے لے کر ماہرين تک مفید معلومات پہنچانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات ميں مقیم پاکستانی ريڈیولوجسٹ ڈاکٹر آمنہ جمالی کہتی ہيں،”ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہمارے لیے نت نئی ايجادات کے بارے ميں معلومات حاصل کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے، جسے سوشل میڈیا نے آسان بنا ديا ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ کووڈ انیس جیسی مہلک بیماری دنيا کے مختلف علاقوں ميں تيزی سے پھيلی ليکن دنیا کے مقابلے ميں یو اے ای ميں اس وبا کے اثرات دير سے آئے۔
انہوں نے کہا کہ باقی ملکوں میں ماہرین کے ساتھ سوشل میڈیا پر رابطے ہونے کی وجہ سے میں انہیں بڑی مدد ملی۔ ڈؤئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، “ہم سوشل میڈیا کے مختلف پليٹ فارمز پر سی ٹی اسکين اور ايکسرے رپوٹوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شيئر کرکے متعلقہ شعبوں کے حوالے کر ديتے ہيں۔ سوشل میڈیا کے بغير يہ سب کچھ اس تيزی سے ممکن نہيں ہو سکتا تھا۔”
سوشل میڈیا پاکستان ميں امدادی کارکنوں اور تنظیموں کو منظم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔ کراچی میں لاک ڈاؤن سے متاثرہ غريب خاندانوں کی امداد کے لیے سماجی کارکن احمد شبر اور جبران ناصر نے “پاکستان ورسز کورونا راشن ڈرائيو” کے تحت سوشل میڈیا پر چندہ اکھٹا کرنا شروع کیا۔ ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ اس بحران میں سوشل میڈیا کو کئی طرح سے استعال کيا جانا چاہییے۔ انہوں نے کہا،” اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کی مختلف قومی زبانوں ميں لاک ڈاؤن کی پاسداری اور حفظان صحت کے اصولوں کی اہميت اجاگر کی جائے۔ اين جی اوز اور جو لوگ انفرادی سطح پر راشن تقسيم کر رہے ہيں ان سب کا ڈيٹا سوشل میڈیا کے مختلف پليٹ فارمز پر مہیا کیا جائے۔ اس سے حکومت بھی مستفید ہو سکتی ہے۔”
لیکن جبران ناصر نے کہا کہ ساتھ ہی ہمیں کورونا وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر افواہوں اور غلط معلومات کے پھيلاؤ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔”یہ سوشل میڈیا کا منفی کردار ہے جسے سوشل میڈیا ہی کے ذريعے مثبت بنانے کی ضرورت ہے۔” اسی لیے بعض ماہرين سوشل میڈیا کو ایک دو دھاری تلوار قرار دے رہے ہيں۔ حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کو لوگوں ميں حد سے زیادہ خود اعتمادی ، اضطراب ، افسردگی، منافرت، اور تعصب کی وجہ بھی قرار دیا گيا ہے۔
کراچی کے سینئر ماہر نفسیات شبیر علی راشد کے مطابق موجودہ بحران میں مسلسل گرما گرم خبروں کی بھرمار لوگوں کو پریشان اور تھک جانے کا احساس دلاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں لوگوں کو الگ تھلگ رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے لوگ اعصابی تناؤ، اضطراب اور خوف کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لیکن ایسے میں ان کے نزدیک سوشل میڈیا کو مثبت طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ تنہائی کے باعث ہماری ذہنی صحت متاثر نہ ہو۔ ان کے مطابق اگر سوشل میڈیا کا سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے تو یہ بات چیت، رابطوں اور تفریح کا اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔