ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وَبا امریکا کے لیے ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں پر معافی مانگنے کا تاریخی موقع تھی۔
صدرحسن روحانی نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ بدقسمتی سے امریکیوں نے ان مشکل عالمی حالات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنی غلط کاریوں پر معذرت کرنے کا ایک اچھا موقع تھا اور انھیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ ایرانیوں کے خلاف نہیں ہیں۔‘‘
ایران کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے،اس کے تحت امریکا سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کو ختم کرے کیونکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں کرونا وائرس کی وَبا سے نمٹنے کے لیے ادویہ اور طبی سامان تک رسائی میں رکاوٹیں حائل ہورہی ہیں۔
تاہم وزیر صحت سعید نمکی سمیت بعض ایرانی عہدے داروں نے اس دعوے سے اختلاف کیا ہے کہ امریکا کی پابندیاں کرونا وائرس کی وَبا سے نمٹنے میں ایران کی کوششوں میں حائل ہورہی ہیں۔
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم کے مطابق سعید نمکی نے سوموار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ پابندیوں کے تحت اگرچہ کرونا وائرس سے نمٹنا مشکل ہے لیکن ہمیں اس مہلک وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے درکار ادویہ کی قلّت کا سامنا نہیں ہے۔‘‘
دریں اثناء ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور سپاہِ پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے کہا ہے کہ ملک کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے امریکا کی کسی مدد کی ضرورت ہے اور نہ وہ اس کی کسی مدد کو قبول کرے گا۔
بعض ایرانی کارکنان کا کہنا ہے کہ خامنہ ای نظام ایک جانب تو یہ کہہ رہا ہے کہ وہ امریکا کی مدد کو قبول نہیں کرے گا اور دوسری جانب امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے بھی کوشاں ہے اور اس نے کرونا وائرس کی وَبا کو بہانہ بنا کر تمام پابندیوں کے خاتمے کے لیے مہم برپا کررکھی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان مئی 2018ء کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔تب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی 2015ء میں ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ایران کے خلاف زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ کی انتظامیہ نے ہنوز ایرانی عہدے داروں یا کاروباری اداروں کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اس کا مقصد ایران کے خلاف دباؤ بڑھانا اور اس کو مذاکرات کی میز پر آنے مجبور کرنا ہے۔