’جب ڈاکٹر بھی بیمار پڑ جائیں، تو مریض کون دیکھے گا؟‘

Doctor

Doctor

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا کے بحران کے بعد دنیا بھر میں ڈاکٹروں کے حفاظتی لباس اور سامان کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بعض ڈاکٹر اپنی مدد آپ کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کو آ رہے ہیں۔

مہنگے نجی ہسپتالوں نے اپنے آرڈر دے رکھے ہیں لیکن ملک کے طول و عرض میں پھیلے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے اکثر ڈاکٹر اپنی جیب سے اپنی حفاظت کا بندوبست کرنے پر مجبور ہیں۔

انہیں میں سےایک اسلام آباد کی گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر صائمہ زبیر ہیں۔ وہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج کی گریجوئیٹ ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے ان کا دھیان زچہ بچہ کے مسائل سے زیادہ ملک میں کورونا کے باعث میڈیکل کمیونٹی کو درپیش خطرات پر ہے۔

وہ بتاتی ہیں، “بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ہمارے ساتھی ڈاکٹرز کے پاس کورونا سے بچاؤ کے لیے کوئی حفاظتی لباس اور سامان نہیں۔ وہ مسلسل مجھ سے کہتے آ رہے تھے کہ کچھ کریں۔”

ڈاکٹر صائمہ میڈیکل کمیونٹی میں خاصی متحرک ہیں۔ وہ مسائل کا رونا رونے کیبجائے ان کا حل نکالنے پر یقین رکھتی ہیں۔انہوں نے اپنے ذاتی جاننے والوں اور رضا کاروں کی مدد سے کچھ فون گھمائے اور ڈاکٹرز کی مدد کا راستہ نکال لیا۔

انہوں نے بتایا، “اس وقت ملک بھر میں اکثر طبی عملے کو یہ معلوم نہیں کہ پرسنل پروٹیکشن اکویپمنٹ کہاں سے اور کیسے ملے گا۔ ہم نے اس کا کھوج لگایا اور فیکٹریوں کو آرڈر دے دیا۔”

ڈاکٹر صائمہ نے لاکھوں روپے کی بھاری رقم فی الحال اپنی جیب سے بھر دی، اس امید پر کہ جن ساتھی ڈاکٹرزکے لیے وہ یہ سب کر رہی ہیں وہا آہستہ آہستہ اس کی ادائیگی کردیں گے۔

لیکن پھر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پنجاب کی فیکٹریوں اور اسلام آباد سے اٹھایا جانا والے حفاظتی سامان کوئٹہ کیسے پہنچے گا؟ ٹی سی ایس کارگو سروس سے رجوع کیا،لیکن بات نہیں بنی۔ بہرحال انہوں نے پھر کچھ فون گمھائے اور کسی نہ کسی طرح یہ ضروری سامان کوئٹہ کے ڈاکٹروں تک پہنچا۔

میڈیکل کمیونٹی میں بات پھیلی تو انہیں ملک کے طول و عرض سے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے فون آنا شروع ہوگئے۔ اکثر نے کہا کہ ان کے پاس بھی حکومت کی طرف سے کوئی حفاظتی سامان نہیں پہنچا اور وہ اپنے پیسوں سے اسٹاف کے لیے یہ سامان خریدنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر صائمہ نے بتایا، “مجھے اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کے بھی فون آئے کہ پلیز یہ سامان مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں۔”

مشکل حالات میں شہری حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گیا۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان میں پڑھا لکھا متوسط طبقہ ویسے بھی حکومت سےکوئی خاص توقعات نہیں رکھتا۔ جو کاروبار کرتے ہیں ان کو حکومت پر یہ اعتبار نہیں ہوتاکہ وقت پر ادائیگی ہوگی بھی یا نہیں، اس لیے وہ سرکارکو مال بیچنے سے ہچکچاتے ہیں۔

پاکستان کو پچھلے ہفتے چین کی طرف سے تین کارگو پروازوں کے ذریعے کورونا کی ٹیسٹ کِٹس، ماسک اور دس ہزار حفاظتی لباس ملے۔ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹنٹ جنرل محمد افضل کے مطابق اگلے ہفتے چھ اپریل تک طبی عملے کے لیے چین سے مزید ایک لاکھ حفاظتی لباس پہنچنے کی توقع ہے۔

لیکن تب تک شاید کافی دیر ہو چکی ہو۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں کوئٹہ، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ڈاکٹرز اور ان کے عملے میں کورونا وائرس پھیلنے کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران انفیکٹ ہونے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کی موت نے میڈیکل کمیونٹی کی تشویش کو مزید بڑھا دیا۔

کراچی میں سول ہسپتال کی ایک سینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے یہاں ابھی تک انتہائی نگہداشت وارڈ سمیت دیگر وارڈز میں ڈاکٹرز اور اسٹاف کے پاس کوئی حفاظتی لباس نہیں۔ انہوں نے کہا، “ہسپتال میں بعض لوگ کپڑے کے سستے ماسک پہنے پھر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس نہ پلاسٹک کے دستانے ہیں، نہ آنکھوں اور چہرے کی حفاظت کا کوئی انتظام۔ ہمارا عملہ اس وقت سب سے زیادہ رسک پر ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ان کے یہاں بھی کچھ ڈاکٹرز نے مل کر ایک مقامی فیکٹری کو ایک ہزار حفاظتی لباسوں کا آرڈر دیا ہے، جس کی مارکیٹ میں فی لباس قیمت بتیس سو روپے ہے لیکن فیکٹری نے انہیں ساڑھے سات سو روپے فی لباس کے رعایتی ریٹ پر یہ سامان مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

پاکستان میں حکومت نے “کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے” کا نعرہ لگایا ہے۔ لیکن ملک میں طب کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی نظر میں یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمانڈر اپنے سپاہیوں کو خالی ہاتھ مسلح دشمن کے سامنے کھڑا کردے۔

اس حوالے سے گزشتہ دنوں بعض ٹی وی چینلز پر ڈاکٹروں اور نرسوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں “سلام” پیش کرنے کی مہم چلائی گئی۔

کراچی کے ایک سینئر ڈاکٹر نے اس پر یوں تبصرہ کیا: “ہمیں ان نمائشی اقدامات کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو حفاظتی سامان کی، تاکہ ہم اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ دنیا میں ہر شخص سماجی دوری کر سکتا ہے لیکن ڈاکٹر مریض سے فاصلہ نہیں رکھ سکتا۔ اسے مریض کی مدد کے لیے اسے چھونا ہی ہوتا ہے۔ ان خيالات میں اس مہلک انفیکشن سے ہمارا واحد دفاع یہ حفاظتی سامان ہے۔ کیونکہ اگر ڈاکٹر بھی بیمار پڑنا شروع ہوگئے، تو پھر مریضوں کو کون دیکھے گا؟