دُنیا میں ابتک صرف دو ریاستیں نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں جن میں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ہے۔میرا ایمان ہے کہ جس ملک کی بنیاد کلمے کی بنیاد پر رکھی گئی ہو اسے کبھی زوال نہیں آ سکتا،یہ تاقیامت شاد و آباد رہے گا۔ اس ملک پر اللہ پاک کا خصوصی کرم ہے کہ جب بھی اس پر کوئی ناگہانی مسلط ہوئی تو پاکستانی عوام کے جذبہ ایمانی نے جوش مارا اور وہ میدانِ عمل میں نکلے،تو میرا ایمان ہے کہ فرشتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ جیسے جنگ بدر میں 313 کے لشکر نے اپنے سے تین گنا بڑے لائو لشکر والے دُشمنوں کی صفوں کو تہس نہس کر دیا تھا ۔ سنہ 3 ھجری 17 رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔اس ملک نے اپنے قیام سے لے کر ابتک لاتعداد مشکلات کا سامنا کیا۔ جنگوں اور دہشت گردیوں کا سامنا کیا، وبائوں کا سامنا کیا، الحمد للہ اللہ پاک نے پاکستان اور ہم پاکستانیوں کو ہمیشہ سُرخرو کیا۔
اگرچہ اس ملک کو لوٹنے والوں نے کوئی کَسر نہیں چھوڑی، لیکن سب سے اہم بات جو ہم پاکستانیوں میں ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی مشکل یا پریشانی میں ہم ایک ہو جاتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے۔ ہمارے اندر لاکھ اختلافات سہی لیکن جب معاملہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کا آ جائے تو ہم ایک قوم بن جاتے ہیں۔پاکستانی ایک مٹھی کی مانند ہیںاگرچہ ہمارے درمیان نفرت اور نفاق کا بیج بونے کے لیے ہمارے ازلی دُشمن ہر وقت تیار رہتے ہیں اور ہمیں مذہبی منافرت، فرقہ بندی ، ذات پات اور برادری کے نام پر ہمارے درمیان تفرقہ بازی کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اللہ کے فضل سے مشکل میں یکجان ہو جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ بھی ایسے مواقع پر یک جان ہو کریہی پیغام دیتی ہے کہ ہم ایک ہیں۔جس سے اس ملک میں رہنے والے ہر رنگ و نسل کے افراد میں مثبت پیغام جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سوچ اور ہمارا تعلیمی نصاب بھی ایک ہو جائے اور ہم ایک جیسا سوچیں نہ ہم میں کوئی پنجابی ہو ، نہ سندھی ، نہ بلوچی اور نہ پٹھان۔
میں سمجھتا ہوں کرونا وائرس عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔ چین میں جب یہ آفت پھوٹی تو وہاں کی عوام اور حکومت نے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور آخر کا اس ناگہانی آفت پر قابو پا لیا۔ یہی وائرس اب اس وقت دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں اپنی تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہے۔ سب سے زیادہ متاثر امریکہ ، اٹلی ، سپین، چین،ایران ہو چکے ہیں۔ ہماری حکومت نے بھی بروقت اقدامات کرنے شروع کیے تھے لیکن بارڈ پر خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے سبب ایران سے زائرین کی ایک کثیر تعداد بغیراسکینگ اور ٹیسٹنگ کے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آ گئی جسکی وجہ سے وائرس پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلنا شروع ہوا۔دیگر ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے پھیلا جو ائرپورٹ حکام کو رشوت دے کر کرونا پازیٹو ہونے کے باوجود گھروں کو بھاگ گئے جن کی وجہ سے کرونا پاکستان میں پھیلا۔ تبلیغی جماعتوں کے اکٹھ بھی کروناء پھیلانے کا سبب بنے۔ اگرچہ اس وقت تک مریضوںکی تعداد اور حالات حکومت کے کنڑول میں ہیں۔ حکومت سماجی دوری اختیار کرنے پر مسلسل زور دے رہی ہے تاکہ یہ مرض مزیدنہ پھیلے اور اس پر جلد قابو پایا جا سکے۔
ملک میں اس وقت جزوی لاک ڈائون ہے مساجد میں جانے پر پابندی ہے۔ میل جول کم سے کم اور گھروں میںرہنے کی ہدایات دی جا رہی ہیںکہ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلا جائے تاکہ اس وائرس کا پھیلائو روکا جا سکے۔حکومت نے لاک ڈائون مزید 14 اپریل تک بڑھا دیا ہے۔ صنعتیں او ر کارخانے بند ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور گھروں میں مقید ہیں۔حکومت کا موقف یہ ہے کہ اگر عوام چودہ دن مزید سماجی دوری اختیار کریں اور گھروں میں رہیں تو حالات کا جائزہ لے کر عوام کی سہولت کے لیے مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ہیلتھ کے شعبے میں پنجاب حکومت کو بھرتیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی ہو چکی ہے،بھرتی اشتہارات دیئے جا چکے ہیں جن پر عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ہیلتھ پروفیشنلز کا کہنا ہے کہ یہ صرف کاغذی خانہ پُری ہے ۔ انٹرویوز کرکے امیدواروں کو اسٹینڈ بائی رکھا جائے گا اگر وباء مزید پھیلتی ہے تو پھر ان امیدواروں کو ڈیوٹی پر بلایا جائے گا۔پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ محکمہ صحت میں انٹرویو کر کے منتخب ہیلتھ پروفیشنلز کو پنجاب بھرکی ہسپتالوں میں تعینات کردے تاکہ ہسپتالوںمیں سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کے لیے بھی انہیںتیاربھی کیا جاسکے کیونکہ چند ماہ بعد ڈینگی بخار بھی سرا ُٹھانے کو تیار ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو پاکستانی معیشت کا بھی احساس ہے۔ وہ کنسٹرکشن کے کاروبار کومراعات کے ساتھ کھولنے جا رہے ہیں تاکہ غریب دیہاڑی دار مزدور اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی عزت سے کما سکے۔کنسڑکشن کے کاروبار کے ساتھ چالیس سے زائد صنعتیں جڑی ہوئی ہیں جس سے ملکی معیشت کو کچھ سہارا ملے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پانچ اپریل سے دیگر صنعتوںاور کارخانو ں کو بھی حفاظتی اقدامات کے ساتھ کھولنے کا اعلان کرے تاکہ ان اداروں میں کام کرنے والے دیگر ملازمین کو بھی روزگار مل سکے اور ان کی رکی ہوئی تنخواہیں انہیں ادا ہو سکیں۔ کیونکہ اس وقت ہر شخص کے حالات ایسے ہیں کہ وہ ایک ماہ بے روزگاری میں نہیں گزار سکتا۔ گورنمنٹ ملازمین اور پنشنرحضرات کو تو تنخواہ اور پنشن ان کے اکاونٹس میں آچکی ہے لیکن پرائیویٹ سیکڑ میں کام کرنے والے ملازمین اور ورکر اب تک تنخواہوں سے محروم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی سیکڑ میں کام کرنے والی صنعتوں اور کارخانوں کے مالکان کو پابند کرے کہ وہ کسی ملازم کو نہیںنکالیں گے اور انہیں پوری تنخواہ ادا کریں گے۔
ملک میں کروڑوں لوگ اس وقت اس ملک کی سالمیت اور بقاء کے لیے اپنے رب کے حضور سر بسجود ہیں اور دُعا گو ہیں کہ اللہ پاک ان کو اس آفت ناگہانی سے اپنے پیارے حبیب کے صدقے محفوظ رکھے اور ہمارے گناہوں کی بخشش فرمائے ۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اس وباء سے ہماری جان چھوٹے گی ۔ ہماری مسجدوں میں باجماعت نماز پنجگانہ کی ادائیگی ہو گی۔۔ ملک میںمعیشت کا پہیہ ایک بار پھر پورے آب و تاب کے ساتھ چلے گا اور خوشحالی پاکستانیوں کا مقدر ہو گی۔