اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا ایک ملین سے زائد انسانوں کو بیمار اور تقریبا ساٹھ ہزار کو ہلاک کر چکی ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقے کے لاکھوں افراد کے لیے کورونا کی وبا اپنے ساتھ بھوک اور فاقے بھی لائی ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ شہریوں کی تعداد ہزاروں میں اور ہلاک شدگان کی تعداد درجنوں میں ہو چکی ہے۔ اس وبا کے باعث پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن ہے، جس نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے غریب مزدور طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں ایسے مزدوروں اور ان کے گھرانوں کی اکثریت کے لیے کورونا وائرس بھوک اور فاقے بھی ساتھ لایا ہے۔ بہت سی سماجی فلاحی تنظیمیں مستحق شہریوں کی مدد کر رہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے تمام پاکستانی گھرانوں کے بھوک کے مسائل ختم ہو گئے ہیں۔
یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والوں کی زندگی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ روز کام کریں تو اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال سکتے ہیں۔ وہ جس دن کام نہ کریں، اس روز ان کی جیب اور پیٹ دونوں خالی رہتے ہیں۔ ایسے پاکستانی مزدور مرد اور زن لاک ڈاؤن کے باعث اپنے گھروں سے باہر نہیں جا سکتے۔ انہیں بھی وائرس سے متاثر ہو جانے کا خوف لاحق رہتا ہے، اس بے یقینی کے ساتھ کہ بھوک لگی تو کھائیں گے کیا؟
‘بھوک پھر ہماری منتظر‘ ستائیس سالہ نجمہ ںاصر بھوک اور غربت سے تنگ آ کر روزگار کی تلاش میں چار ماہ قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ملتان سے اسلام آباد آئی تھی۔ سات سالہ بیٹے یاسر اور چار سالہ ذہنی معذور بیٹی عالیہ کی ماں نجمہ ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میرا شوہر ایک حجام کی دکان پر دیہاڑی پر کام کرنے لگ گیا تھا۔ میں بنی گالا میں ایک گھر میں ملازمہ ہو گئی تھی۔ میرا بیٹا ایک مقامی اسکول جانے لگا اور معذور بیٹی کا پمز ہسپتال میں علاج بھی شروع ہو گیا تھا۔‘‘
نجمہ نے بتایا کہ کورونا وائرس کے باعث اس کے خاندان کا ایک کڑا امتحان شروع ہو گیا، ”پہلے حجام کی دکان بند ہوئی، پھر اسکول بند ہوا۔ جہاں میں کام کرتی تھی، انہوں نے ایک ماہ کی تنخواہ دے کر گھر بھیج دیا کہ میں اور میرا خاندان محفوظ رہیں۔ پھر کوچیں بھی چلنا بند ہو گئیں۔ ہم واپس ملتان نہیں جا سکتے تھے۔ ہمارے پاس محدود رقم بھی ختم ہو گئی تو مریم فاؤنڈیشن نامی ایک فلاحی تنظیم نے ہمیں کچھ راشن ڈال دیا۔‘‘
جب حالات مزید خراب ہونے لگے تو نجمہ کے آجر خاندان نے کرایہ خود ادا کر کے ایک ٹیکسی پر اس خاندان کو اسلام آباد سے واپس ملتان بھیج دیا۔ نجمہ ناصر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”ہم ملتان اپنے آبائی گھر پہنچ تو گئے لیکن ہمیں پتا تھا کہ وہاں بھی بھوک ہی ہماری منتظر ہو گی۔ ہمارے یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔‘‘
‘ہم تو جانتے تھے، دوسروں کو اب علم ہوا‘ اسلام آباد کے علاقے جی ٹین مرکز میں پولیس سے الجھتی شہلا نامی ایک ٹرانس جینڈر دو مقامی پولیس اہلکاروں کے ساتھ اپنی شدید بحث کے بعد دیر تک بہت ناراض تھی، اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس وائرس اور وبا نے غریبوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ امیر لوگ تو راشن بھر کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ ہم پہلے بھی معاشرے میں تنہائی کا شکار تھے، اب بھی ہیں۔ ہم فاقوں سے پہلے بھی واقف تھے، اب بھی کر رہے ہیں۔ جسے یہ سب لوگ قرنطینہ کہتے ہیں، ہم تو اس احساس کو شروع سے جانتے ہیں۔ صحت مند امیر لوگوں کو اب پتا چلا ہے کہ ‘کرانٹین‘ کیا ہوتا ہے۔‘‘
شہلا نے بتایا کہ اس کی برادری کے افراد زیادہ تر بھیک مانگ کر یا ناچ گا کر گزارہ کرتے تھے لیکن ’اس کورونا نے ہمیں فاقوں پر مجبور کر دیا ہے۔ باہر نکلو تو پولیس ڈنڈے مارنے پر اتر آتی ہے۔‘‘
آٹے کی بوری اور فوٹو اتروانے کا مطالبہ آبائی طور پر بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے پینتالیس سالہ ناصرہ بی بی گزشتہ چھ سال سے اسلام آباد کے آئی نائن سیکٹر کی رہائشی اور چار بچوں کی ماں ہے، جو تین سال پہلے بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کا شوہر ریڑھی پر نان حلیم بیچتا تھا اور بیوگی کے بعد سے لے کر لاک ڈاؤن تک ناصرہ بھی یہی کام کرتی تھی کہ اسے اپنے بچوں کا پیٹ تو پالنا ہی تھا۔
ناصرہ بی بی نے بتایا، ’’میرا کام بند پڑا ہے۔ ایک پیسے کی آمدن نہیں۔ یہ بندش ہمیں فاقوں تک لے آئی ہے۔ مجھے لوگوں کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ اگر کوئی امداد کے طور پر آٹے کا تھیلا بھی دیتا ہے، تو مطالبہ کرتا ہے کہ ساتھ فوٹو بھی بنواؤ۔ حکومت کہتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کو کھانے پینے کا سامان دیا جائے گا، کہاں ہے وہ سامان؟ کس کو ملا ہے؟‘‘
بھیک مانگتا اسی سالہ بزرگ اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کے باوجود سڑکوں پر بھیک مانگتےایک اسی سالہ بزرگ سے جب ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی، تو اس معمر شہری نے اپنا نام شاہ زیب بابا بتایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے گھر سے باہر کیوں ہیں اور انہوں نے حفاظتی ماسک کیوں نہیں پہن رکھا، تو انہوں نے کہا، ’’میرے بچوں کے پاس کوئی روزگار نہیں، پوتے پوتیاں بھی فاقے کر رہے ہیں۔ میں خدا کے نام پر مدد کی درخواست کرتا ہوں۔ کچھ لوگ مدد کر دیتے ہیں تو کچھ گزارہ کر لیتے ہیں۔‘‘ اس بزرگ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انہیں کورونا وائرس سے متاثر ہو جانے کا کوئی خوف نہیں، تو انہوں نے کہا، ’’یہ پتا نہیں کیا بلا ہے۔ ڈر تو فاقوں سے لگتا ہے۔‘‘
شاہ زیب بابا کے مطابق ڈر تو فاقوں سے لگتا ہے۔
لودھراں کی غلام سکینہ تیس سالہ غلام سکینہ اور اس کے شوہر رمضان کو روزگار کی تلاش چھ سال پہلے لودھراں سے اسلام آباد لائی تھی۔ ان کے چار بچے ہیں، محمد رمضان دیہاڑی دار مزدور ہے اور سکینہ ایک گھریلو ملازمہ۔ سکینہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرا شوہر کئی دنوں سے گھر بیٹھا ہے۔ مجھے بھی چند گھروں میں کام سے جواب مل چکا ہے۔ اب صرف ایک گھر میں کام کرتی ہوں۔ انہوں نے ہی مجھے گھر کا راشن بھی لے کر دیا ہے۔‘‘
سکینہ نے بتایا کہ اسے اس کے گاؤں سے ماں باپ اور ساس سسر کے فون آتے ہیں، جن میں علاج اور خرچے کے لیے پیسے مانگے جاتے ہیں،’’ہماری تو اپنی جان پر بنی ہوئی ہے۔ ہم گاؤں پیسے کیسے بھجوا سکتے ہیںِ؟‘‘
مقامی سطح پر امداد اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کے دوران غریب گھرانوں کو راشن مہیا کرنے والی ایک تنظیم مریم فاؤنڈیشن بھی ہے، جو پانچ سال سے بنی گالا کے علاقے میں سٹریٹ چلڈرن کے لیے ایک فری اسکول سمیت کئی فلاحی منصوبے چلا رہی ہے۔ اس تنظیم کی سربراہ مریم شبیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، ہم اپنے اسکول کے ڈیڑھ سو بچوں کے خاندانوں اور سنجانی، جیلانی اور ڈھوک مُری کے قریبی دیہات میں یومیہ اجرت والے مزدووں کے گھرانوں کا ڈیٹا جمع کر کے انہیں راشن پہنچا رہے ہیں۔‘‘
مریم شبیر نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’ہم یہ راشن بنی گالا لیڈیز کلب کی طرف سے جمع کر کے مہیا کرتے ہیں۔ اگر چند خواتین مل کر پورے علاقے میں اتنے زیادہ مستحق گھرانوں کی مدد کر سکتی ہیں، تو حکومت پورے ملک میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ بہت غریب اور ضرورت مند طبقے کو گھروں پر راشن ملنا چاہیے، تاکہ وہ فاقے بھی نہ کریں اور اس وبا سے محفوظ بھی رہیں۔‘‘
اسلام آباد کے علاقے بلیو ایریا میں قائم ایک تنظیم پبلک رائٹس اویئرنیس کے صدر محمد عبدالواحد نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ویسے کام کر ہی نہیں رہیں جیسے انہیں کرنا چاہیے۔ ملک میں بلدیاتی ادارے بھی فعال نہیں ہیں۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بلدیاتی ادارے آپریشنل ہوتے تو موجودہ بحرانی حالات میں لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کیے جا سکتے تھے۔‘‘