پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 41ویں برسی کو، کرونا وائرس کی وجہ سے پارٹی قیادت نے روایتی جلسے جلوس موخر کردیئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کے بعد وباء امراض کرونا وائرس کے پیش نظر پارٹی کے بانی چیئرمین ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم 1973کے آئین اور ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پرطے شدہ جملہ روائتی تقریبات منسوخ کرنے کا اعلان کیاکہ چار اپریل کو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر جلسے،جلسوس،ریلیاں،سیمینار منعقد نہیں ہوں گے ان کی برسی کے دن صبح کا آغاز مساجد شریف اور گھروں میں قرآن خوانی،فاتحہ خوانی سے کیا جائے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اعلیٰ و قانون کی تعلیم کیلی فورنیا اور آکسفورڈ سے حاصل کی،جنرل ایوب خان کے دور حکومت 1963 میں وزیر خارجہ کے اہم منصب پر فائز ہوئے تاہم حکومت سے شدید اختلافات کے بعد کابینہ سے الگ ہوگئے۔علیحدگی کے بعد اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر 30نومبر1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، پی پی پی کے منشور و مقبول ترین نعرے روٹی کپڑا اور مکان نے ذالفقار علی بھٹو کو ملک کا سب سے مقبول لیڈربنا دیا۔مغربی و مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران و سقوط ڈھاکہ کے بعد انہوں نے اقتدار سنبھالا، جس کی وجہ سے وہ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر 1971 سے 1973 تک پاکستان کے صدر رہے جبکہ 1973 سے 1977 تک وہ منتخب وزیراعظم رہے۔ آمرانہ دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت سنائی اور عدالتی فیصلے پر چار اپریل1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، ان کا جسد خاکی لاڑکانہ گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو اپنے سیاسی فلسفے کی بنا پر عوام میں مرتے دم تک اور بعد میں بھی ملکی سیاست کا اہم کردار رہے، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے افکار کو آگے بڑھایا، کئی اہم معاملات پر ناگزیز و غیر مقبول و کٹھن فیصلے بھی کرنے پڑے، تاہم بھٹو کے فلسفے کی حقیقی داعی بن کر بھٹو ازم کو بڑھاتے خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئی، شہید رانی کی بعد پی پی پی کی سیاست بحرانوں کا شکار رہی تاہم آصف علی زرادری نے پارٹی کو بکھرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت محترمہ کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ملکی سیاست میں ایک نواجون قیادت کی صورت میں ابھرکر سامنے آئے ہیں اور بھٹو کے افکار کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ان کا سیاسی کردار قد آور و تجربہ کار سیاست دانوں کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے، نظریات اور سیاسی ورثے کو ختم نہیں کیا جا سکا، جس کا مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی تاریخ کا جانب دارنہ فیصلہ تسلیم کیا جاتاہے، اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل186 کے تحت مقدمہ کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیااور اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائرکیا۔ جس میں عدالتی فیصلے پر نظرثانی کرنے کی استدعا کی گی۔یہ ریفرنس پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2011کو دائر کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کے فیصلے پرنظر ثانی کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھٹو کی اپنی سیاسی جماعت ملک میں برسرِ اقتدار تھی اور ملک بھر میں ان کی برسی کے حوالے سے چار اپریل سے تقریبات شروع تھی۔پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے متعدد بار بیان دے چکے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کے مقدمہ کو دوبارہ کھولا جائے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو دوبارہ کھولنے یا اس پر نظرثانی کے بارے میں بات کی گئی ہو، اس سے پیشتر بھی اس قسم کے مطالبے کئے جاتے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آچکی ہے او یہ پہلا موقع تھا جب پارٹی کے بانی سربراہ کے خلاف مقدمہ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو ری اوپن کرنے کے حوالے سے سیر حاصل بحث ملکی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، تاہم ماہرینِ قانون کی اس پر متضاد آراء رہیں۔بعض ماہرین قانون کا کہنا رہا کہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو دوبارہ کھول سکتی ہے جبکہ ایسے قانونی ماہر بھی تھے جن کا موقف رہاکہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست مسترد کر چکا ہے اس لیے اب یہ مقدمہ دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی کے وکلاء ونگ پیپلز لائیرز فورم کے ایک عہدیدار میاں حنیف طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ پر بھٹو کو سزا دینے کے لیے خاصا دباؤ تھا اور بھٹو کو شہادتوں کی بنیاد پر سزائے موت سے کم کی سزا دی جاسکتی تھی۔لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے اس درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کردیا تھا۔
دسمبر1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اقتدار سنبھال کر اہم اصلاحات کا نفاذ کیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا، بھارت سے شملہ معاہدہ کر کے ہزاروں مربع میل رقبہ اور جنگی قیدیوں کو بھارت سے آزاد کرایا۔بھٹو کے دور میں نچلے طبقات کے حقوق کے لیے کئی اقدامات کیے،بھٹوکے دور میں ہونی والی اصلاحات میں بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اورپرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینا ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے اصلاحاتی اقدام میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ زرعی اصلاحات، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوراک سمیت بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43فیصد مختص کرنا، پاکستانی عوام کو شناخت دینے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحات شامل ہیں۔حکومت قائم ہونے کے تین سال کی کوششوں کے بعد بھٹو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئے، ملک میں جمہوریت کے استحکام، تسلسل کے لئے یہ آئین پاکستان کا تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ آئین پاکستان میں پہلی بار ختم نبوت ﷺ کے منکرین کے خلاف عملی اقدام کے طور پر جرت مندانہ آئین سازی کی گئی۔7ستمبر 1974ء کو عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی طویل جد وجہد فتح مبین سے ہمکنار ہوئی اور پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور روح ہے۔تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء و مشائخ نے ہر دور میں اس عقیدہ کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانا ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا اہم کارنامہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستا ن کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور آج ان کے جرت مندانہ اقدام کی وجہ سے پاکستان مسلم اکثریت ممالک میں پہلی مسلم اکثریت ایٹمی مملکت بنی۔ جس کہ وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن برابر ہوا تیسری دنیا کے ممالک اور مسلم امہ کے اتحاد کی کوشش میں ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے77ترقی پزیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مشترکہ مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششوں کا انعقاد کیا، اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ایسے گراں قدر فیصلے بھی کروائے۔ذوالفقار علی بھٹو کے افکار و فلسفے کو آج بھی سیاست دان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کے نظریئے کو پاکستان کے مسائل سمجھتی ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی مشکلات و مساعد کا سامنا ہے، ان کی ٹاپ لیڈر قیادت مختلف مقدمات کا سامنا کررہی ہے، لیکن عوام میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا ، پاکستان کے لئے بھٹو کی خدمات کا اعتراف عالمی قیادت کرتی ہیں، پاکستان کو موجودہ مشکلات و عالمی چیلنجوں سے باہر نکالنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو جیسے بے باک اور جرت مند لیڈر کی کمی آج بھی محسوس کی جاتی ہے کہ ان کے متبادل قیادت عوام کو میسر نہ آ سکی۔