روزِ ازل رب ِعلیم و خبیر نے اپنی نیابت کے لیے حضرتِ انسان کا انتخاب کیا اور اُسے ذہنی و جسمانی قوتیں عطا کرکے حکم دیا ”ڈھونڈو زمینوں اور آسمانوں میں”۔ انسان کو ذہنی استعداد اور لامحدود وسائل دینے کا مقصد اِس عالمِ رنگ وبو میں بقائے انسانی تھا لیکن ہم نے ربّ ،ِ لم یزل کی ودیعت کردہ لامحدود صلاحیتوں کو بقائے انسانی نہیں، فنائے انسانی پر صرف کر دیا۔ ایک دوسرے پر سبقت کے جنوں نے نہ صرف کرۂ ارض بلکہ فضاؤں کو بھی مسموم کر دیا۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والی سائنس کی کرشمہ سازیاں اِس انتہا تک پہنچیں کہ انسان اپنی موت پر قابو پانے کی تدبیریں کرنے لگا تاکہ یہ کہہ سکے ”کہاں ہے وہ خُدا جو موت دیتا تھا”۔ تب میرے رَبّ کی دراز رسی یکلخت کَس گئی اور ایک حقیر وائرس نے تاریخِ کُہن کو دہراتے ہوئے وہی کچھ کر دکھایا جو خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑنے والے ابرہہ کے کی فوج کے ساتھ ابابیلوں نے کیا۔ اندھی طاقت کے نشے میں بدمست آج کے فرعونوں کی طرح ابرہہ بھی اپنے ہاتھیوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ خانہ کعبہ کی حرمت کو پامال کرنے نکلا لیکن ننھی مُنی ابابیلوں نے مُنہ میں کنکریاں بھر کر اُس کی فوج کو ایسے کر دیا جیسے ”کھایا ہوا بھُس”۔
آج پھر وہی منظر کہ ایک نظر نہ آنے والے حقیر وائرس نے سارے عالم میں رَبّ ِ لم یزل کی حاکمیتِ اعلیٰ کی منادی کردی۔ بدمست امریکہ کے پاس اتنی ایٹمی قوت کہ وہ پوری دنیا کو ایک سے زائد مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اُس کی ساری ٹیکنالوجی اور ساری صلاحیتیں کورونا کے آگے سرنگوں۔ نیویارک کے سردخانے لاشوں سے اَٹ گئے اور اب اِس شہرِ بے مثال کی سڑکوں کو سردخانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر نے کہا کہ اگر ایک لاکھ انسان مر گئے تو ہم سمجھیں گے کہ بچت ہو گئی۔ ٹرمپ کے مشیرِخصوصی (جس کے لیے وائٹ ہاؤس کے دروازے چوبیس گھنٹے کھُلے رہتے ہیں) نے کہا کہ اللہ ہم سے ناراض ہے، یہ سب عذابِ الٰہی اور ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ اگر ہم نے رَبّ سے معافی نہ مانگی تو کچھ باقی نہ بچے گا۔ شنید ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ تین بار قُرآن مجید کی تلاوت سُن چکا ۔
اٹلی قبرستانوں میں ڈھل چکا۔ اٹلی کے شہریوں نے یہ کہہ کر کرنسی سڑکوں پر پھینک دی کہ جو دولت اُنہیں موت سے نہیں بچا سکتی، اُسے سنبھال کر رکھنے کا کیا فائدہ؟۔ اٹلی کے وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ سارے حربے بروئے کار لا چکے، اب صرف غیبی مدد کا آسرا۔ اہلِ یورپ کے پاس خزانوں کے انبارلیکن اُن کی بے بسی دیدنی اور قابلِ رحم۔ ویٹیکن سٹی میں سارا دن سورہ رحمٰن کی تلاوت ہوتی رہی، سارے گرجہ گھروں میں اللہ ہو اکبر کی صدائیں بلند ہو چکیں۔ ٹیکنالوجی نے رَبّ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ کچھ لوگ طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اگر آفات اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے تو پھر اُن کا نشانہ مفلس ونادار اور مجبورومقہور ہی کیوں؟۔ لو آج اللہ نے یہ حجت بھی تمام کر دی۔ آج ”محمود وایاز” ایک ہو گئے، کورونا نے ساری تفریق ختم کر دی۔ اُس کے انتقام کا نشانہ شاہ بھی شہنشاہ بھی، اُمراء بھی وزراء بھی، شہزادے شہزادیاں اور سربراہ بھی کہ رَبّ کے ہاں کوئی چھوٹا نہیں کوئی بڑا نہیں، کوئی گورا نہیں کوئی کالا نہیں، کوئی عربی نہیں کوئی عجمی نہیں، سب برابر مگر بنیاد اعمالِ صالح۔ یقیناََ سائنس اِس وبا کی ویکسین بھی تیار کر لے گی لیکن تب تک دنیا کا رنگ ڈھنگ بدل چکا ہوگا اور باقی بچ جانے والے ایک نئی دنیا دیکھ رہے ہوںگے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اِس سے پہلے بھی وبائیں آتی رہیںاور دنیا اُجڑتی رہی لیکن یہ حضرتِ انسان بھی کیا عجب شے کہ کچھ ہی عرصے بعد سب کچھ فراموش کرکے پھر اُسی بے ڈھنگی چال پر رواں ہو گیا۔ یقیناََ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔
عالمِ اسلام کا حال اہلِ مغرب سے بھی بَدترکہ اللہ کی محبوب اُمت ہونے کے باوجود سرکش۔ حکیم الامت علامہ اقبال کو اُن کے والد نے نصیحت کی ”بیٹا! تم قرآن کی تلاوت ایسے کرو جیسے یہ اِس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے”۔ اقبال والد کی نصیحت پلّے باندھی اورحیاتِ انسانی کے تمام مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں تلاش کرتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچے کہ
گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جزبہ قُرآں زیستن
اقبال کا زیادہ رجحان فکر کی بجائے عمل پر رہا لیکن آج کا مسلمان عمل کی بجائے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو تقدیر کی چادر میں لپیٹ کر غیروں کی حاکمیت تسلیم کر چکا۔ ایٹمی پاکستان کا سربراہ بھیک کی چادر بچھا کر ”درسِ بیداری” دے رہا ہے۔ اُس کے چاہنے والے تو اُسے متحرک ، توانا اور تابندہ فکرشخصیت سمجھے تھے۔ اُس کی باتوں سے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اُس میں شعوری گہرائی اور دردمندی ہے، اُس کے مقاصد رفیع الشان اور وہ انقلابی۔ اُس کی فاتحانہ یلغار طوفانوں کا رُخ موڑ کر منزل کا نشاں دے گی۔ اُس کے آنے سے مایوسیوں کے روزن سے اُمید کی کرنیں پھوٹیںاور لوگ یہ سمجھے کہ اب کے بہاروں کا عجب رنگ ہوگا، بے نواؤں کی صداؤں سے اونچے ایوانوں کے باسی لرزہ براندام ہونگے، بدعہدوں کو سزا ملے گی، کرپشن کے مگرمچھوں کو سولیوں پر لٹکایا جائے گا، صحنِ چمن میں خوشبوؤں کا ڈیرہ ہوگااور نفرتوں ، کدورتوں کے ریگزاروں پر ابرِنیساں کھُل کر برسے گا لیکن وہ تو ساکت وجامد نکلا۔ نرگسیت کا مارا ضد، غصہ اور انانیت کا پروردہ نکلا۔ اُس کی سیاسی حرکیات میں عدم تسلسل، ہر سطح پر انحراف (یوٹرن) اور کج روی اُس کی صفتِ اول ٹھہری۔ وہ جو سمجھتے تھے کہ اِس دَورِ آشوب میں اُنہیں قوم کی ڈوبتی نیّاپار لگانے والا رَہنماء مل گیا، اب مایوسیوں کے بحرِ بے کنار میں ڈُبکیاں کھاتے ہوئے کہتے ہیں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گنہگار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
اِس وقت کورونا وائرس کے وار جاری ہیں، یہ وائرس 50 ہزار سے زائد جانوں کو نگل چکا، 200 ممالک اِس کا شکار ہوچکے اور عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا۔ اِس دَورِ ابتلاء میں ضرورت اِس امر کی تھی کہ پوری قوم متحد ہو جاتی لیکن اُس نے اپنی انانیت کی تسکین کی خاطر اتحادویگانگت کی فضاء کو پارہ پارہ کر دیا۔ جماعت اسلامی نے اپنے سارے ہسپتال اور رفاعی تنظیم الخدمت کی خدمات اُس کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا۔ شہبازشریف نے اپنے خاندان کے سارے ہسپتال اُس کی خدمت میں پیش کر دیئے، اُس کے بدترین دشمن مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے 40 ہزار رضاکاروں کی خدمات اُس کے سپرد کر دیںلیکن وہ سارے دستِ تعاون جھٹک کر ”ٹائیگرفورس” بنانے نکل کھڑا ہوا کہ اُسے اپنی ذات کے سوا اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ وہ تو 92ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کا تمغہ اب بھی اپنے سینے پر سجائے پھرتا ہے۔
حالانکہ اِس ورلڈ کپ کی جیت کرکٹ کے گیارہ کھلاڑیوں کی مشترکہ کاوشوں اور قوم کی دعاؤں سے ممکن ہوئی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تشکیل اُس کی انتخابی کیمپین کا محورو مرکز رہی جبکہ اِس ہسپتال کی تشکیل قوم کے پیسوں سے ہوئی۔ سبھی جانتے ہیں کہ اِس قوم میں اور کچھ ہو نہ ہو، جذبۂ خیر کی لہریں ہمہ وقت تازہ دَم رہتی ہیں۔ اُس نے جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کا اعلان کیا تو پوری قوم نے اُس کی آواز پر لبّیک کہا۔ اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے زمین عطیہ کی، اُن کے والد میاں شریف مرحوم نے کروڑوں روپے امداد دی۔ مخیر حضرات نے اُس کے قدموں میں دولت کے انبار لگا دیئے۔ حتیٰ کہ سکولوں کے ننّھے مُنّے بچوں نے اپنی ”پاکٹ مَنی” تک اُس کے سپرد کر دی لیکن اُس نرگسیت کے مارے نے ہسپتال پر لگی وہ افتتاحی تختی بھی اتار پھینکی جس پر میاں نوازشریف کا نام کندہ تھا۔ اب شوکت خانم کینسر ہسپتال اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ استادہ ہے۔ سوال مگر یہ کہ اِس ہسپتال کا نام شوکت خانم کیوں، قومی ہسپتال کیوں نہیں؟۔
اب سوال قومی معیشت کی بربادی یا مہنگائی کا نہیں، لوگوں کی زندگیوں کا ہے اِس لیے کوئی بھی اُس کی نرگسیت کی بھینٹ چڑھنے کو تیار نہیں۔ مخیر حضرات اپنے طور پر میدانِ عمل میں آچکے۔ اپوزیشن جماعتیں متحرک ہو چکیں۔ جماعت اسلامی کی الخدمت نے کمر کَس لی، کراچی سے خیبر تک اُس کے کارکُن متحرک۔ جمعیت علمائے اسلام کے رضاکار پورے ملک میں پھیل چکے۔ نوازلیگ کے کارکُن اپنے طور پر حرکت میں آچکے۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کورونا کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی اختیار کر چکی اور ہزاروں لوگ انتہائی خاموشی سے متاثرین کی مدد کا جذبہ لے کر باہر نکل چکے۔ وہ اپنی ٹائیگر فورس کو سینت سنبھال کر رکھے کہ اگلے الیکشن میں اُس کے کام آئے گی۔