مشرق وسطیٰ (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی وبا کے باعث عالمی تجارت رک گئی اور دنیا بھر کی نصف سے زائد عوام آئسولیشن میں ہے۔ اس بحران کے دوران نہ صرف حکومتوں کے تختے الٹ سکتے ہیں بلکہ ممالک کے مابین سفارتی تعلقات میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے موجودہ تنازعات میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے مطابق ‘مشکل ترین حالات ابھی آنے والے ہیں‘۔ کووڈ انیس کا مہلک مرض ایسے وقت میں عالمگیر وبا میں تبدیل ہو گیا جب شام میں گزشتہ نو برس سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کے لیے ترکی اور روس کے کردار کے اثرات سامنے آ رہے تھے۔
شام کے شمال مغربی علاقے ادلب کے’سیز فائر زون‘ میں مقیم تقریباﹰ تین ملین افراد جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس شورش زدہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے نے جنگ بندی کی ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ سیریئن آبزیرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق گزشتہ ماہ مارچ کے دوران شام میں 103 تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح رہے سن 2011 کے بعد سے کسی بھی ایک مہینے میں ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد میں یہ سب سے کم تعداد ہے۔
شام کی متعدد قوتیں، جیسے کہ دمشق کی حکومت، شمال مشرق میں کردوں کی خود مختار انتظامیہ اور جہادی گروہوں کے اتحادی جو ادلب میں متحرک ہیں، کورونا وائرس کا خطرہ ٹلنے کے بعد دوبارہ سے اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ مشرق وسطی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار فبریس بالانشے کے خیال میں یہ وبا دمشق حکومت کے لیے ایک موقع ہے، جس سے وہ یہ ظاہر کرسکتے ہے کہ شامی ریاست موثر ہے اور ملک کے دیگر علاقوں کے انتظامات بھی اس حکومت کو واپس دیے جانے چاہییں۔
دوسری جانب امریکا اس وبائی مرض اور عالمی سطح پر متحرک ہونے کی وجہ سے شام اور ہمسایہ ملک عراق سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تاہم جہادی گروہ اسلامک اسٹیٹ کے لیے خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
یمن کی حکومت، حوثی باغی اور سعودی عرب نے ابتدائی طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی استدعا کا مثبت جواب دیا۔ تاہم یہ جنگ بندی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور سعودی عرب نے ایران کے حمایت یافتہ ان باغیوں کے حملے کے جواب میں پیر کے روز یمنی دارالحکومت صنعاء میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر حملہ کر دیا۔ یاد رہے ہمسایہ ملک سعودی عرب یمنی حکومت کی حمایت میں فوجی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔ یمن تنازعہ کے حوالے سے بات چیت متعدد مرتبہ ناکام ہوچکی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مندوب مارٹن گریفتھس ملک گیر جنگ بندی کے سلسلے میں روزانہ مشاورت کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں یمن میں صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور وہاں تقریباﹰ چوبیس ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس بحران زدہ صورت حال میں اگر یہ ملک کورونا وائرس کی وبا کا شکار ہو گیا اور جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں معطل ہو گئیں تو بہت بڑی تباہی کا خدشہ ہے۔
یمن کی طرح لیبیا نے بھی اقوام متحدہ کی اس اپیل کا خیر مقدم کیا لیکن دارالحکومت طرابلس کے جنوبی علاقوں میں حالیہ چند دنوں سے لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور لگتا یوں ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث بھی لڑائی نہیں روکی جائے گی۔ بین الاقوامی کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق یورپی حکام نے بتایا ہے کہ کورونا وارئس کی وبا کے باعث لیبیا میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے معاملے کو عالمی سطح پر اہمیت نہیں مل رہی ہے۔
ماضی کے برعکس عراق اب مکمل طور پر تنازعات کی لپیٹ میں نہیں ہے لیکن بعض عراقی علاقوں میں داعش کی بحالی کا خطرہ ضرور موجود ہے۔ امریکا اور ایران نئی قسم کے کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہیں لیکن دونوں کی جانب سے عراق میں اپنے اثر و رسوخ کے حوالے سے جاری جنگوں میں کسی بھی طرح سے کمی یا پیچھے ہٹنے کا عندیہ نہیں دیا گیا۔ یاد رہے عراق سے اتحادی افواج کے بیشتر غیر امریکی فوجی اہلکاروں کی واپسی ہو چکی ہے اور بعض اڈے بھی خالی کرا دیے گئے ہیں۔ اب امریکی دستے ملک میں مٹھی بھر مقامات پر دوبارہ منظم ہو کر رہ گئے ہیں۔ واشنگٹن نے پیٹریٹ فضائی دفاعی میزائلوں کو تعینات کیا ہے، جس کی وجہ سے تہران کے ساتھ تازہ تناؤ میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔