اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جن لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے چینی کے بحران کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے وہی لوگ اس پر عمل درآمد کرائیں گے۔ کیا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ‘شوگر مافیا‘ کو سزا ملنے والی ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، ملک کے عوامی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا اب کی بار چینی کا بحران پیدا کرنے والے با اثر لوگوں کو سزا مل سکے گی یا نہیں؟ اس تحقیقاتی رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ چینی کا بحران خود ساختہ تھا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کے بھائی کے علاوہ پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی چوہدری مونس الہی اور کئی دیگر سیاسی خاندان بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے ممتاز اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی کی صنعت کی ساری تاریخ کے برعکس انہیں یہ لگتا ہے کہ اس مرتبہ ملک میں شوگر بحرانوں کا باعث بننے والے با اثر صنعتکار سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ منصور احمد کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی رضامندی کے ساتھ اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا ہے، بلکہ ان پر دباؤ ڈال کر اسے منظر عام پر لایا گیا ہے،”اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اس بات کا بھی امکان تھا کہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کے دفتر سے اسے لیک کروا دیا جاتا۔‘‘
منصور احمد کے بقول اس رپورٹ کا منظر عام پر آنا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ ان کے بقول اصولی طور پر تو اس رپورٹ کو بہت پہلے سامنے آ جانا چاہیے تھا، ”اس رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات تو بڑی حد تک ابتدائی رپورٹ میں ہی سامنے آ گئے تھی لیکن حکومت مزید سوالات پوچھتی رہی، وضاحتیں طلب کر کے تاخیر کرتی رہی۔ ‘‘
کئی عشروں سے پاکستان کے اقتصادی امور پر باقاعدگی سے لکھنے والے منصور احمد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیر اعلی خیبر پختونخواہ محمود خان، وفاقی وزیر خسروبختیار اور زلفی بخاری وغیرہ کے حوالے معلومات فراہم کرکے اس صورتحال کا نوٹس لینے کے لیے کہا گیا تھا لیکن حکومت اس ضمن میں پس و پیش سے کام لیتی رہی اور اب جو صورتحال بن رہی ہے، اس میں آہستہ آہستہ گھیرا تنگ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے، پانامہ سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے واجد ضیا کی تازہ تحقیقاتی کاوشوں کے نتیجے میں نواز شریف کی طرح یہ لوگ بھی نہیں بچ سکیں گے۔
منصور احمد نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں نواز شریف، آصف زرداری ، چوہدری مونس الہی، ہمایوں اختر، ذکا اشرف اور خسرو بختیار سمیت بہت سے سیاسی خاندانوں نے شوگر ملیں لگائی ہوئی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود یہ سیاسی رہنما عوام کے سامنے تو لڑتے رہتے ہیں لیکن شوگر کے مسئلے پر دولت سمیٹنے کے لیے خاموشی سے اکھٹے ہو جاتے رہے ہیں۔ ان کے بقول اس لیے شوگر مافیا کے غیر قانونی کارٹل کے خلاف کسی بھی دور میں کامیابی سے کارروائی نہیں ہو سکی تھی،” اس سال صرف پنجاب ہی وہ واحد صوبہ تھا جس نے شوگرملوں کے مالکان کو سب سڈی دی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں منصور احمد نے بتایا کہ یہ بات بظاہر درست ہے کہ چینی کو ای سی سی اور کابینہ کی اجازت سے برآمد کیا گیا،” اس لیے عمومی طور پرتو یہ غیر قانونی نہیں ہے، لیکن یہ ایک غیر اخلاقی بات ہے کہ غلط اطلاعات دے کر لابنگ کر کے سبسڈی حاصل کر کے اس چینی کو ملک سے باہر بھیج دیا جائے جس کی ملک میں ضرورت ہے اور پھر ملک میں چینی کی قلت کے پیش نظر اس کے نرخ بڑھا کر غیر منصفانہ منافع کما کر غریب لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا جائے۔ شوگر ملوں کے معاملات کی درست تحقیقات ہوں تو یہ اندازہ ہوگا کہ ان کے ٹیکس کے معاملات میں بھی شفافیت نہیں ہے۔ ‘‘
ایک اور معاشی تجزیہ نگار خالد محمود رسول کا خیال ہے کہ شوگر ملوں والے کوئی عام صنعتکار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت با اثر لوگ ہیں اور ان کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ہے،” یہ دراصل پاکستان کے رئیسوں اور با اثر اشرافیہ کا کلب ہے ، یہ اپنی مرضی کے قوانین بنوانے اور اپنے مرضی کے فیصلے لینے کا بھرپور اختیار رکھتے ہیں۔ ان کے پاس صورتحال کو مینج کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اس لیے سیاسی لوگوں کی بڑھکیں ایک طرف رکھ دیں، شوگر ملوں کے حمام میں یہ سب سیاسی کردار ننگے ہیں، اس لیے ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کو سزا مل سکے گی۔‘‘
شوگر ملوں کے ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے چینی کے بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کو وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب کے خلاف فرد جرم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اقربا پروری اور کرپشن پر اپنے اور وزیر اعلی پنجاب کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں۔ ادھر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ اس رپورٹ پر شہباز شریف کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس رپورٹ میں سلیمان شہباز کو ایک ارب 40 کروڑ روپے سبسڈی دینے کا ذکر بھی موجود ہے۔
سندھ میں متعدد شوگر ملوں کے مالک آصف علی زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ عمران خان کا احتساب بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ ن کے بقول اگر آصف زرداری اور نواز شریف کی گرفتاری کے لیے فرانزک رپورٹ کا انتظار نہیں کیا گیا تھا تو پھر اب کیوں کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سبسڈی اور ناجائز منافع خوری کے نتیجے میں ہتھیائی جانے والی دولت واپس لے کر کورونا فنڈ میں جمع کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن یہاں آٹے ، چینی، ٹماٹر کے ساتھ ساتھ کئی دیگر زرعی اجناس کے بحران دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ اتوار کے روز بھی لاہور میں غریب لوگوں کی بڑی تعداد گورنر ہاؤس کے باہر راشن لینے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرتی رہی۔