لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) لاہور شہر کی جدید ترین بستی بحریہ ٹاؤن میں ایک ہی دن میں 26 افراد کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی خبر نے شہریوں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کو عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اضافی گیٹ بند کروا دیے گئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کے اہلکار اس کے بیرونی دروازوں پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔ اور صرف رہائشیوں کو شناخت کے ساتھ بحریہ ٹاؤن میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کا شمار پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے سب سے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بحریہ ٹاؤن ملک کے مختلف حصوں میں رہائشی آبادیوں کو جراثیموں سے پاک کرنے کا آپریشن کر رہا ہے۔ اس کی اپنی ہاؤسنگ اسکیم سے ایک ہی دن میں 26 افراد کے ٹیسٹ کا مثبت آنا باعث تشویش سمجھا جا رہا ہے۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے ان کنفرم مریضوں میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ کے ذاتی ملازم بھی شامل ہیں اس کے علاوہ ایسے سکیورٹی گارڈز میں بھی کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے جن کا رابطہ آتے جاتے مکینوں سے رہتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں موجود ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں تمام ملازمین اکھٹے کھانا کھاتے ہیں اور عام طور پر ایسے موقعوں پر سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بقول ابھی تو تھوڑے سے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جن میں سے 26 مریض نکلے ہیں، اگر باقی اسٹاف کی سکریننگ کروائی جائے تو نتائج اس سے بھی پریشان کن ہو سکتے ہیں۔
پنجاب کے محکمہ صحت کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شوکت خانم سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے 26 افراد میں کورونا وائرس پایا گیا جس پر متاثرہ افراد کوایکسپو سنٹرمیں شفٹ کر دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق متاثرہ افراد سے ملنے والی معلومات کے بعد محکمہ صحت کی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو ان لوگوں تک پہنچیں گی جو ان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، ان کے ٹیسٹ کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے وہ لوگ جو کورونا کے کنفرم مریض کے طور پر سامنے آئے ہیں ان کے ٹیسٹ خود بحریہ ٹاؤن نے کروائے تھے۔
بحریہ ٹاؤن کے اہلکاروں اور بحریہ ٹاؤن کے آس پاس کے علاقوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک سو سے اوپر ہو سکتی ہے۔ کورونا کے کچھ مریضوں کو بحریہ ٹاؤن کے اندر بنائے جانے والے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا ہے اور باقیوں کو ایکسپو سنٹربھجوا دیا گیا ہے۔
ٹویٹر پر ایک صارف عاصم امیر خان نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج کا حوالہ دے کر لکھا کہ تین ذاتی ملازمین کے کورونا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد ملک ریاض کی اپنی رہائش گاہ کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بدھ آٹھ اپریل کی شام تک پاکستان میں کورونا کے کل تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 4072 تھی جبکہ صرف پنجاب صوبے میں ایسے مریضوں کی تعداد 2160 تھی۔ لاہور میں کورونا کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اوراب یہ 340 تک پہنچ چکی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ دن پہلے بحریہ ٹاؤن کے نواحی علاقے میں واقع شہر رائے ونڈ کو بھی کورونا مریضوں کے منظر عام پر آنے کے بعد سیل کرنا پڑا تھا۔
ٹویٹر پر جاری کیے گئے اپنے ایک پیغام میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے وہ لوگ جو کورونا کے کنفرم مریض کے طور پر سامنے آئے ہیں ان کے ٹیسٹ خود بحریہ ٹاؤن نے کروائے تھے۔ ان کے بقول آٹھ نو ہزار روپے والے اس ٹیسٹ کی لاگت برداشت کرنا کسی غریب آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کے ٹیسٹ کروانا دراصل بحریہ ٹاؤن کی ان فلاحی خدمات کا حصہ ہے جس کے تحت وہ اپنے ہسپتال اور جگہیں قرنطینہ کے لیے فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے بقول موجودہ حالات میں کسی کو مؤرد الزام ٹھہرانے کی بجائے مشکل حالات کے خلاف اکٹھا کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
بحریہ ٹاؤن کو عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اضافی گیٹ بند کروا دیے گئے ہیں اور صرف رہائشیوں کو شناخت کے ساتھ بحریہ ٹاؤن میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے جب موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض صاحب کے ٹویٹر پیغامات ہی ان کا موقف ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں کہ کورونا کے شکار ہونے والے بحریہ ٹاؤن کے ملازمین کی تازہ ترین تعداد کتنی ہے، نادیہ نامی خاتون نے بتایا کہ لیب والے ہمارے ملازمین کے ٹیسٹوں کا رزلٹ ہمیں نہیں دیتے بلکہ حکومت کو بھجواتے ہیں۔ آپ یہ انفارمیشن پنجاب کے محکمہ صحت کے حکام سے لیں۔ جب ان سے بحریہ ٹاؤن لاہور کے شہریوں کی اس شکایت کے بارے میں پوچھا گیا کہ لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں جراثیم کش سپرے کیوں نہیں کیا گیا تو انہوں نے اس کی تردید کی۔
ایک تجزیہ کار فارووق حمید کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات حیرانی کا باعث ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے جیسی بستیوں سے کورونا کے کیسز نکل رہے ہیں، جہاں صفائی ستھرائی کا نظام قدرے بہتر ہوتا ہے۔ ان کے بقول ابھی کچھ اندازہ نہیں کہ باقی بستیوں میں کورونا کی کیا صورتحال ہوگی: ” ملک ریاض صاحب لوگوں کی مدد کرنے والے ایک ہمدرد انسان ہیں۔ میں ان کو مشورہ دوں گا کہ وہ ذاتی ملازمین اور سکیورٹی اسٹاف کے ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد اب فوری طور پرخود اپنا ٹیسٹ کروائیں اور کچھ دیر کے لیے احتیاطی تنہائی میں چلے جائیں۔ اسی طرح پاکستان کی وہ اہم شخصیات جن کا ملک صاحب سے ملنا جلنا رہا ہے، انہیں بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ کہیں ان میں کورونا کے مرض کی علامات تو نہیں آ رہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ بحریہ ٹاؤن میں کورونا وائرس آنے کی خبروں پر پاکستان کے زیادہ تر میڈیا کی پراسرار خاموشی کی کیا وجہ ہے، فارووق حمید کا کہنا تھا، ”پاکستانی میڈیا کی مجبوری قابل فہم ہے۔ بحریہ ٹاؤن فراخ دلی سے اشتہار دینے والا ادارہ ہے، اس کے حوالے سے خبریں لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘
فاروق حمید نے یاد دلایا کہ جب سپریم کورٹ کی طرف سے ملک ریاض صاحب کو 480 ارب روپے کا جرمانہ کیا گیا تھا تو ملکی میڈیا کے بہت سے اداروں کی طرف سے اس خبر کو اس کے میرٹ کے مطابق کور نہیں کیا گیا تھا۔