دیا جلائے رکھنا ہے

Sugar Mafia

Sugar Mafia

تحریر : شاہ بانو میر

ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا
انشاءاللہ

کئی مہینے کی اعصاب شکن جنگ کے بعد
کل سےملک میں قدرے سکون دیکھنے کو ملا
جب
انتہائی عسرت زدہ خاندانوں کیلیۓ
حکومت کی طرف سے عملی اقدامات کی صورت
کیش رقم کو بانٹا گیا
پاکستان میں شروع ہی سے سنا
یہاں نظام اسلامی ہے
اسلامیات بھی
سکول کی ابتدائی کلاسسز سے ہی پڑہائی جاتی تھی
صادق کون امین کون
یہ بھی ہم نے ابتدائی کلاسسز میں پڑھا تھا
مگر
پھر نجانے کیا ہوا
حروف مطلب کھو بیٹھے
علم مفقود ہو گیا
لوٹ کھسوٹ ملکی وسائل پر اداروں پر اس قدر ہوئی
کہ
ملک اپنے نام کی قدر اور پاسپورٹ کامقام ہی کھو بیٹھا
حکمران
اللہ کی پکڑ اور عذاب سے اس قدر بے خوف ہوئے
کہ
دھڑلے سے ہر وہ نوٹ جس پر حق کسی غریب کا تھا
وہ اس سے چھین کر کبھی فرنٹ مین توکبھی فرنٹ لیڈی
سال میں کئی کئی چکر بیرون ملک
اور
ہر چکر میں نوٹوں کے بنڈل
روٹی کا نوالہ غریب سے دور کرتے چلے گئے
بے نام و نشان لوگ بےگھر
جیسے ہی سیاست میں آتے ہیں
یہ گُر سیکھ گئے
عوام سادہ ہے لوٹنا کیسے ہے
لہٰذا
نہ صرف گھر بنے بلکہ نسلوں کے بھی بنا گئے
اور
وہ کروڑوں لوگ جو ان پر اعتماد کر کے ان کو لائے
وہ کل کی طرح آج بھی
مفلوک الحال بیروزگار
اور
وہ سیاستدان جن کے گھروں میں
کل تک روٹی کے لالےتھے
آج اصلی گھی کے چراغ شکرانے کے طور پر
مزاروں پر جلا رہے ہیں
یوں
سیاست زندہ رہی اور عوام بھوکی مرتی رہی
وہی روز اول کی طرح
قرضہ جاتی اسکیمیں نصیب بنیں
پاکستان ویسا ہی ڈولتا ڈگمگاتا لڑہکتا خود کو
سنبھالنے کی کوشش میں ہی مصروف رہا
ملک میں اقربا پروری اور اداروں کی پامالی
عوام کی بد دعاؤں کی صورت
آسمان سے ٹکرائی تو
ایک کے بعد دوسرا قہر جیسے ٹوٹتا چلا گیا
کہاں کی معاشی ترقی کہاں کی خوشحالی؟
اُس آسمان والے نے
ان زمین والوں کے تمام کے تمام
کاغذی پراجیکٹس کو فلاپ کرکے
آج کیا سپر پاور اور کیا پاکستان
محمود و ایاز کی طرح
ایک ساتھ پریشان خوفزدہ کھڑا کر دیا
میرے رب کے ان لشکروں میں سے ایک لشکر
کرونا وائرس
دیگر مساجد اور عبادت گاہوں کا کیا ذکر
حرمین شریفین بند کر دیے گئے
لیکن
ہم سوچتے نہیں
اس وحشت زدہ ماحول میں استغفار کی بجائے ہم
سیاست سیاست کھیل رہے ہیں
اس ماحول میں جب بھوک نے مستقل ٹھکانہ بنا رکھا ہے
ہمیں کئی کئی ہفتے اس سوچ و بچار میں لگتے ہیں
کہ
ایسا کام کونسا کیا جائے
جس سے کل ووٹ بینک بڑہایا جا سکے
دین کہتا
فاستبقوالخیرٰت
نیکی کے کاموں بھاگو
اللہ اکبر
سیاست اسی ظالمانہ سوچ کا اور طرز عمل کا نام ہے
سب کھیل ایک ہی بساط پر
مختلف زاویوں سے کھیلے جا رہے ہیں
حسب سابق
مہرے عوامی اور چالیں حکومتی اکابرین کی
پہلے بساط پر
عوام کیلئے مسائل بڑہائے جاتے ہیں
شوگر مافیا اور آٹا مافیا کی صورت
پھر
نام ان کا عیاں کیا جاتا ہے
پہلے جو سیاسی کشتی کے کے ملاح تھے
ناخدا تھے
مگر
اب جب ہوا موافق سمت ہوئی اور کشتی ہموار چلنے لگی تو
یہی ناخدا اب کشتی کیلئے بوجھ بن گئے
بوجھ سے سیاسی کشتی چلنی مشکل تھی
اب ان کا وقت اور حصہ ختم
یوں
رپورٹ ایسی بنائی
کہ
بچا بھی لیا اور پھنسا بھی دیا
سب گول مال
جیسی رپورٹ منظر عام پر لا کر
ایک اہم ترین بندے کا پتہ بھی صاف کر دیا گیا
اور
دوسری جانب
نگاہیں کہیں نشانہ کہیں کے مِصداق
اب گہرا وار کیا جائے گا
چونتیس سالہ پرانے کیس کی طرح
پرانے سیاسی ملوں کے مالکان کے خلاف
کمزور سیاست
مضبوط سیاسی حریف برداشت نہیں کرتی
لہٰذا
انتظار کیجیۓ
اگلی قسط کا
جو مخالف سیاسی جماعتوں پر قہر بن کر گرے گی
کم ظرف پر احسان کریں تو ان کے شر سے ڈریں
یہ اقوال زریں تو ضرور یاد آ رہا ہوگا
جہاز چلے روپیہ پانی کی طرح بہایا
اور
آج خود کسی بے وزن تنکے کی طرح
بہہ کر سیاست کے جھرمٹ سے دور
یہی ہے
اس ملک کی سیاست
جب بنیاد رکھی جائۓ تو
چن چن کر نظریاتی محنتی لوگ تلاش کئے جائیں
جب کامیابی ملے تو پھر وہی بوجھ لگتے ہیں
یہی اس وقت ہوا
ملک میں کیا دنیا بھر
اس وقت کرونا کرونا کی دہائی دے رہی ہے
حسب سابق ہمارے ٹیکنو کریٹس بیورو کریٹس
عوام کو کرونا کے خوف سے نکال کر
شوگر مافیا کے گرد لانے میں کامیاب ہو گئے
لیکن
اتنی بری خبروں میں بادِ نسیم کی طرح کیف آگیں خبر
کہ
اس بے بس عوام کو تاریخ میں پہلی بار
سیاسی بنیادوں ے ہٹ کر
بغیر امتیازی شناخت کے
مبلغ بارہ ہزار فی کس
ایک خاندان کو کل سے دیا جا رہا ہے
پاکستان جیسے ملک میں
جہاں حکومت کی روایت صرف لینے کی ہو
ایسے میں کوئی حکومت ایسی بھی آئی
کہ
اس نے روپے حقیقت میں دینا شروع کیے
بارہ ہزار ایک معقول تو نہیں مناسب رقم ضرور ہے
کہ
جسم اور ورح کا رشتہ برقرار رکھا جا سکے
ایک طرف شوگر مافیا اور دوسری جانب کرونا
کرونا کی اہمیت کو ختم کرکے
نئی فکر سامنے لا کر
میڈیا کے چالاک ہوشیار اور جہاندیدہ
اینکرز کی مت کیسے مار دی گئی
اس کا کریڈٹ ہمیشہ کی طرح
عمران خان کو جائے گا
ان باتوں کے ساتھ ساتھ صدق دل سے
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں
کہ
اس برے وقت میں ہمارے رازق مالک خالق
نے غرباء کیلئے حکومت کو وسیلہ بنایا
ملک کے مخیر حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں
خصوصا وہ اہل ثروت
گاؤں گاؤں جا کر غرباء میں راشن تو تقسیم کیا
لیکن
تصاویر بنوا کر ان کی تضحیک نہیں کی
مبارکباد کے مستحق ہیں
ہر کوئی دوسرے کیلئے فکرمند ہے پریشان ہے
دعاگو ہے
یہ ہے میری قوم
اللہ پر توکل اور اچھے دنوں کی امید
آج پہلی بار
کیش رقم ہاتھوں ہاتھ دی جا رہی ہے
ایسا خوبصورت نظارہ ہے
کہ
باعزت انداز سے احاطے میں بیٹھی ہوئی مائیں بہنیں
بزرگ معذور افراد
ان کے ارد گرد پہرہ دیتے ان کا خیال رکھتے
محافظ
تہذیب اور شائستگی کی وہ مثال
جس کیلیۓ
آنکھیں ترستی تھیں
کہ
میرے ملک کے
اس عام شہری کو کب عزت احترام اور تعظیم ملے گی؟
آج دیکھ لیا
الحمد للہ
عمران خان گِلہ ہوگا تو بھی کرنا ہے
اور
جب کبھی کام بہترین ہوگا
تو
تعریف کا حق بھی
انشاءاللہ
ادا کرنا ہے
سیاست کرنے والے اور بہت ہیں
مگر
ہمارا شماران میں ہے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی چکائے جو واجب نہیں تھے

حیرت انگیز تبدیلی
کا یہ اشارہ مبہم نہیں روز روشن کی طرح واضح ہے
اللہ
اس ملک کو سیاست کی غلاظت اور دلدل سے نکال کر
اس سیاست کو ایک بار
پھر
خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار کرے
ملک خوشحال ہو
عوام کامیاب ہو
دنیا میں اس کا نام ہو
ہم زندہ قوم تھے
انشاءاللہ
زندہ قوم رہیں گے
شرط صرف ایک ہے
کہ
اپنے اپنے حصے کا دیا جلائے رکھنا ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر