اقوام عالم انتہائی الم ناک صورت حال سے دوچار ہے۔ایک طرف تو کرونا نے تباہی مچا رکھی ہے تو دوسری طرف معاشی مسائل نے آن گھیرا ہے۔ وہیں کچھ عالمی غنڈے موجودہ صورتحال کی آڑ میں سازشیں رچارہے ہیں۔ دنیا کے طاقتور ترین لوگ ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کے مستقبل کا فیصلہ لکھ رہے ہیں۔دنیا بھر کی حکومتیں کاروباری اشراف کی مٹھی میں قید ہیں۔ دنیا کی ریت جو ٹھہری، طاقت ور ہر بار حاکم بنتے ہیں! وسیع پیمانے پر کاروبار کرنے والے لوگوں کیلئے سیاسی شیلٹر ضروری ہوتا ہے۔ کارباری شعور رکھنے والے سیاست میں حصہ لینے کی بجائے سیاسی پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہوں گے، ایک کونسلر سے لے کر ملک کے صدر تک پر کاروباری لوگ روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں اور پھر انہی کے دور میں ذخیرہ اندوزی، غیر قانونی دھندوں اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرکے اپنا لگایا گیا پیسہ ہزاروں گنا بناتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت بڑے کاروباری خاندان موجود ہیں جن میں سے بادشاہ بھی ہیں اور کاروباری دنیا کے ٹائیکون بھی۔دوسری جنگ عظیم کو ہوئے بھی لگ بھگ اسی سال کے قریب ہو چکے ہیں، کئی ملکوں کو آزاد ہوئے۔ کئی خطوں میں استحکام آئے عرصہ ہوچکا۔جس وجہ سے یہ ممالک معاشی سطح پر مستحکم ہو کر مہذب ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ رعنائیاں دھوکہ و فریب کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جو خوشحالیاں نظر آتی ہیں وہ آنکھوں کا جھلاوہ ہیں ان کی ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ جائزہ لیں تو دنیا بھر میں بے شمار کاروباری اشراف پیدا ہو چکے ہیں جو ان لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو پوری دنیا کی معیشت پرقابض ہیں۔
ظاہر ہے وہ کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ان کے سامنے آنکھیں دکھانے والا ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے پوشیدہ مقاصد میں ایک تو دنیا بھر کی معیشت کو کنٹرول کرنا تھا، تو دوسری جانب تمام ممالک میں کٹھ پتلی حکومتیں بنا کر ان کے ذریعے اپنی مطلق العنانی کو قائم کرنا تھا۔آپ ذرا جائزہ لیں کہ جن ممالک کے پاس معاشی وسائل انتہائی مضبوط تھے(لیبیا، مراکش، الجزائر، لبنان، مصر وغیرہ) اور انہوں نے ان ناخداؤں کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو انہیں عالمی غنڈوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، ان سے عبرت لے کر کئی دوسرے ممالک (مسقط، ابو ظہبی،کویت،اومان،سعودی عرب)نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ انہی کی سازشوں کی زد میں پاکستان جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک بھی ہیں جو کبھی مستحکم نہیں ہو پائے ہیں۔
چلیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کرونا کی بیماری ایک فطرتی چناؤ ہے، بائیولوجیکل وار نہیں!پر بہت سے ممالک میں قائم مقام حکومتیں اس کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں۔ عالمی غنڈے یہی چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے لوگ دنیا میں راج کریں۔ سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان کی ان عالمی غنڈوں کے ساتھ بہت بنتی ہے، وہاں کے شہنشاہ سلمان بستر مرگ پر ہیں، اصولوں کے مطابق سعودی عرب کی بادشاہت سلمان کے بعد ان کے چچیرے بھائیوں کے طرف جاتی ہے، جو عالمی غنڈوں کو پسند نہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یمن اور ایران کے نام پر جس قدر پیسہ وہ محمد بن سلمان سے نکلوا سکے ہیں اس قدر انہیں کوئی بھی سعودی شہنشاہ نہیں دے گا۔ اس پر دو عالمی لابیوں کی جنگ جاری ہے، ایک طرف چین، روس اور ان کے ساتھی ممالک کوششیں کر رہے ہیں کہ سعودی عرب میں موجودہ حکمران خاندان کسی طرح ختم ہو اور وہاں کی بادشاہت شاہ فیصل کے خاندان میں جائے۔دوسری طرف اسرائیل، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ان کے ساتھی ممالک محمد بن سلمان کو پسند کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان نے کرونا کی آڑ میں اپنے تمام چچیرے بھائیوں کو گرفتار کر لیا ہے، اس خبر کو سعودی عوام سے چھپایا جا رہا ہے، اگر اس بار کرونا کی وجہ سے حج منسوخ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہزادہ محمد بن سلمان ہی آیندہ سعودی فرمانروا ہونگے۔
دوسری صورت میں سعودی عرب میں خونریزی ہو سکتی ہے۔چین کے ساتھ دوستی اور اس کے معاشی منصوبوں کو کامیاب بنانے میں مدد کر نے اور پاکستانی ا سٹیبلشمنٹ کی کامیاب حکمت عملیوں کی پاداش میں اس حکومت کو بھی اپنے مہروں کے ذریعے مجبور کر دیا گیا ہے کہ یا تو وہ باقی نہ رہے یا پھر ذلیل و رسوا ہو جائیں۔ موجودہ حکومت کے سکینڈلز منظر عام پر آنے لگے ہیں اور ان کو مشورہ دینے والے بھی ن لیگ کو مشورہ دینے والوں جیسا ثابت ہو رہے ہیں۔ایک طرف تو جہانگیر ترین جیسے پی ٹی آئی کے چوٹی کے راہ نماؤں کے سکینڈل کھل رہے ہیں تو دوسری طرف ٹائیگر ریلیف فورس جیسے منصوبے بن رہے ہیں۔ اس ٹائیگر ریلیف فورس کی کٹوں اور فیول پر جتنا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے اگر یہی کام گھر میں فضول بیٹھے اساتذہ و دیگر محکمہ جاتی ملازمین سے لے لیا جاتا تو بہت آسانی ہو جاتی اور اس طرح لوگوں کو سیاست چمکانے کا موقع بھی نہ ملتا! کیوں کہ ہر محلہ سطح پر اساتذہ اور دیگر ملازمین موجود ہیں اور وہ معاشرتی تعلقات بھی خوب استوار کئے ہوئے ہیں۔غرض یہ کہ میری نظر میں یہ پالیسی انتہائی بیوقوفانہ ہے۔دوسری جانب شہباز شریف بظاہر تو کرونا کی وجہ سے پاکستان آ گیا ہے کہ قوم کو اس کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
کیونکہ اس نے نہ تو رائیونڈ کے دروازے غریبوں کیلئے واہ کیلئے ہیں اور نہ ہی اس نے یہاں راشن بانٹے ہیں! ہاں مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ جب سے وہ آیا ہے پاکستان میں اسی کی مرضی کی پالیسیاں چل رہی ہیں۔ اور عمران خان سے منسوب صرف کرونا ریلیف ٹائیگر فورس جیسے اقدامات ہی ہو رہے ہیں۔ نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجتے وقت بھی عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان ڈھیر وں اختلاف تھے، اس سے پہلے الیکٹیبلز کی حمایت پر بھی عمران خان اور جہانگیر ترین میں اتفاق نہ ہوا، لیکن ہر بار جہانگیر ترین جیت جاتا رہا ہے۔
اب بھی جہانگیر ترین کا ہی معاملہ ہے، اور اتنے سارے چیلنجز کے بعد یہ نیا رپہاڑ عمران خان کو بے حوصلہ مند کر سکتا ہے۔ بہت سی چہ مگوئیاں اور بھی سنائی دے رہی ہیں کہ وفاق میں ہلچل مچی ہوئی ہے، خان دلبرداشتہ ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر کے اس بار فیصلہ عوام کے ہاتھ میں رکھ دیں کہ وہ اپنا حکمران کس لیڈر کو چاہتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسی صورتحال عوام الناس کیلئے بھی چونکا دینے والی ہو گی۔عوام صرف ایک ہی ادارے پر اعتماد کر سکتی ہے اور وہ فوج ہے۔پاکستان کا استحکام چین کے سپر پاور بننے سے ہے اور چین و روس کی لابی پاکستان کے حق میں کھڑی ہے۔لیکن یہ بھر عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔ ترکی خلافت پر دوسری جنگ عظیم کے وقت کیا جانے والا معاہدہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں ترکی کو کوئی جگہ نہ دینے کے بعد ترکی نے بہت جلد خود کو سنبھالا ہے۔ اس معاہدہ پر سعودی عرب کو ترکی کی خلافت تسلیم کرنے پر پابند ہے جو عالمی غنڈوں کے حق میں نہیں۔ دنیا بھر کے موجودہ حالات سے فائدہ اٹھانے والے عالمی غنڈے اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اس بار اس امر کا فیصلہ کہ دنیا میں سپر پاور کون بنے گا۔ تمام ممالک خاص طور پر سعودی عرب، پاکستان کی عوام فیصلہ کرے گی کہ سپر پاور چین بنتا ہے یا امریکہ قائم رہتا ہے۔