میاں محمد طفیل مشرقی پنجاب کے کپورتھلہ کے ایک گائوں رائے پور رائیاں میں ١٩١٣ء میں پیدا ہوئے اور لاہور منصورہ میں ٩٢ سال کی عمر میں ٢٠٠٩ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے سابق امیر تھے۔ میاں صاحب بانی جماعت اسلامی ،مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کے معتمد ترین ساتھی اور طویل عرصہ تک جماعت اسلامی کے قیم کی حیثیت سے فرائض ادا کرتے رہے۔مولانا مودودی کی جانشینی کا شرف بھی انھیں ہی حاصل رہا۔ اس طرح جماعت اسلامی کے دوسرے امیر تھے۔ میاں طفیل محمد اپنی وفات کے وقت تک ادارہ معارف اسلامی کے چیئرمین، رابطہ اسلامی کے رکن اور رابطہ کے تحت عالمی مساجد کونسل کے ممبر تھے۔انھوں نے مولانامودودی کے بعد مشکل اور پر آشوب حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت کا حق ادا کیا۔ میاں صاحب علاقہ کپور تھلہ کے پہلے بی اے ایل ایل بی وکیل تھے۔ وکالت پاس کرنے کے بعدجالندھر میں شیخ محمد شریف صاحب کے ہمراہ وکالت شروع کی۔ شیخ محمد شریف بعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔میاں صاحب کا تعلق متوسط درجے کے ایک کاشت کار گھرانے سے تھا۔ان کے خاندان کے بزرگان گائوں میں نمبر دار اور ذیلدار تھے۔
میاں صاحب کے تایا چوھری رحمت علی کپور تھلہ اسمبلی کے ممبر بھی چنے گئے تھے۔ خاندان کی مخالفت کے باوجود،امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ، جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں لاہور شریک ہوئے تھے۔ ١٩٤١ء لاہور جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس لاہور میں شریک ہوئے تو کوٹ پتلون پہنے تھے۔ جب دوسرے لوگ حلف اُٹھانے لگے تو میاںطفیل محمد نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ توشکل و صورت سے مسلمان نہیں لگ رہے۔ مولانا مودودی نے لوگوں سے کہا اسے حلف اُٹھانے دو ۔ اسے کچھ وقت دو، اپنی شکل و صورت بھی اسلام کے مطابق بنا لے گا۔میاں صاحب نے شکل و صورت کیا بنائی۔ بلکہ اپنی ساری زندگی اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔میاں صاحب مرتے دم تک یک سو ہوکر جماعت اسلامی میں رہ کرسرگرم زندگی گزاری۔میاں صاحب کئی بار جیل میں بند کیے گئے۔
بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں ذوالفقار علی بھٹو اور سابق گورنر پنجاب کھر کی ایما پر میں لاہور کے قلعہ میں بدترین توہین اور اذیت سے قیدکاٹی۔ مگر میاںطفیل محمد نے سنت پر عمل کرتے ہوئے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی۔ایک دفعہ گورنر ہائوس میںبھٹو نے مگر مچھ کے آنسووں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ میاں صاحب سے معافی مانگتے ہوئے اورسابق گورنر پنجاب کی طرف اشارہ کرتے ہے کھر کو گالی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی بدمعاشی کا کیا دھرا ہے۔١٩٥٨ء میں وزیر اعظم پاکستان ملک فیرز خان نون نے جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ملاقات میں انھوں نے میں جماعت اسلامی کے خدمت خلق اورواعظ و نصیحت کے کام کی بڑی تعریف کرنے کے بعد کہا، اگر آپ سیاست میں دخل چھوڑ دیں تو ہم آپ لوگوں کے پائوںدھو دھو کر پینے کے لیے تیار ہیں۔
ورنہ ہمیں آپ لوگوں کے خلاف سخت قدم اُٹھنا پڑے گا۔میاں صاحب نے جواب دیا کہ ہماری سیاست عوام کو قرآن و حدیث کی طرف بلا نا اور حکمرانوں کو ملک کو آئین کے مطابق حکومت چلانے کے علاوہ کچھ نہیں۔آپ ہمارے ساتھ جو کچھ کرنا چاہیں کریں۔لوگ عموماً یہ تاثر دیتے ہیں کہ میاں صاحب ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے حامی تھے۔ٹھیک ہے پہلے حکمرانوں سے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کو اچھا سمجھتے تھے۔ مگرجب ڈکٹیٹر ضیا ء نے مقامی اور بھارتی فلمی ستاروں کا اعزاز سے نوازہ تو اس کی سخت مخالفت کی۔فوجی حکومت کے متعلق جماعت اسلامی کی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر شیشے کے محل میںبھینسا گھس آئے، تو اسے ڈنڈے مار کر نکالیں گے تو وہ شیشے کے محل کو تیس نیس کر دے گا۔لہیٰذا اس کے سامنے گھاس چارہ لہرا کر شیشے کے محل سے باہر نکالانے والی پالیسی پر جماعت اسلامی نے عمل کیا۔
میاں صاحب کی خوش مزاجی کا ذکرکریں تو ایک د فعہ منصورہ مرکزسے لاہور شہر کسی جماعتی کام سے گئے۔ ان کے ساتھ جماعت اسلامی کے دو مقامی عہدہ دار بھی تھے۔راستے میں مزنگ میں میاں صاحب کواپنے داماد ڈاکٹر محمد آصف سے ملنا تھا۔ وہاں دیکھا کہ مریضوں کا رش ہے۔ ساتھ ہی میاں صاحب کے چاہنے والے ایک ڈاکٹر کیپٹن(ریٹائرڈ) شاہد نثار کا کلینک بھی تھا۔ ان کے پاس اتفاق سے مریض کم تھے۔میاں صاحبِ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ان کے کلینک میں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے چاہے بسکٹ سے تواضع کی۔
ڈاکٹر صاحب نے آنے کی وجہ معلوم کی۔ میاں صاحب نے کہا کہ ڈاکڑوں کے پاس مریضوں کو دکھانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر محمد آصف بھی وہاں آ گئے۔ میاں صاحب جب اُٹھ کر جانے لگے، تو ڈاکٹر نثار صاحب نے معلوم کیا کہ آپ نے مریض تو دکھا ئے ہی نہیں؟ میاں صاحب نے کہا کہ دو مریض میرے ساتھ ہیںمگر لا علاج ہیں۔آپ ان کا علاج نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر صاحب نے حریت سے کہا مگر یہ تو کسی مرض میںمبتلا نہیں، بلکل ٹھیک ہیں۔میاں صاحب نے کہا کہ مجنوں
٢ ہی تو ہیں کہ جماعت اسلامی ،لیلا کے لیے دکھے کھا رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی کی طرح ہوش میں ہوتے تو عیش نہیں کر رہے ہوتے؟اس پر دونوں ڈاکٹروں اور دونوں مریضوں نے خوب قہقہے لگائے۔ جماعت اسلامی کے لیے اپنے آپ کو معمولی معاوفضے پر وقف کرنے والے ہمہ وقتی کارکن کہلاتے ہیں۔ ایک کارکن نے اسی لیے میاں صاحب کو انٹرویو دیا۔ میاں صاحب نے اسے کہا کہ اپنے آپ کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہو۔ساری زندگی چکی پیسنا پڑی گی۔کارکن نے کہا میںتیار ہوں۔یہ کارکن نے ١٩٦٩ء بی اے پاس کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے شعبہ نشر و اشاعت میں ١٠٠ روپے ماہ وارمعاوفضے پر شریک ہوئے۔ شایداس کی میاں صاحب کے ساتھ ہر وقت ساتھ رہنے کی وجہ سے کچھ انسیت پیدا ہو گئی ہو۔ ایک دفعہ ہمہ وقتی کارکنوں کی تنخواہ میں کچھ اضافہ ہوا۔ میاں صاحب نے خازن جماعت اسلامی کو لکھا کہ میرے معاوفضے میںدس روپے کم کرکے اس کارکن کے معاوفضے میں اضافہ کر دیں۔ عصر حاضر میں یہ ممکن نہیں تو مشکل مثال ضرور ہے۔
میاں صاحب نرم گفتگووالا مزاج رکھتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن کو پیپلز پارٹی کے گھنڈوں نے بے وجہ شہید کر دیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے اس سلسلے میں سابق سٹی ناظم اور الخدمت فائونڈیشن کے صدرنعمت اللہ خان مرحوم کے گھر نظام آباد میں احتجاجی پروگرام رکھا۔ اس پروگرام میں میاں صاحب تشریف لائے تھے۔راقم اُس وقت کراچی میں رہائیش پذیر تھا۔ کارکن بڑے شور سے نعرے لگا رہے تھے۔میاں صاحب نے اپنی دھیمی آواز میں نصیحت کے انداز میں تقریرکرتے ہوئے کہا ”میرے بیٹوںجس کام کے لیے آپ اُٹھے ہو وہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوںکا بستر ہے”اس میں یہ ایک نہیں کئی اورشہادتیںدینی پڑھیںگی۔ سارے لوگوں میں سناٹا چھا گیا۔ اگر دوسری سیاسی پارٹی کا سربراہ ہوتا تو کارکنوں کے جذبات کو اور بڑھاتا۔ایثار کا یہ عالم تھا کہ جب جماعت اسلامی کے دفاتر ١٩٤٧ء میں پٹھان کوٹ جمال پور سے لاہور منتقل ہوئے تو میاں صاحب کافی مدت تک مولانا مودودی کے گھر کے لان میں چھولداری لگا کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائیش پذیر رہے۔ اے کاش! کے ہمارے سارے سیاسی اور دینی رہنمائوں میں ان جیسی خوبیاں پیدا ہوں جائیں۔