جب سے کرونا وائرس آیا ہے تب سے پوری دنیا مشکل میں آئی ہوئی ہے، ترقی یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے دعویدار ممالک بھی اس کرونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں ، آج جب میں یہ تحریر لکھ رہاہوں اسوقت تک میڈیا اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس دنیا کے 213ممالک تک پھیل گیا ہے، پوری دنیا میں کرونا وائر س سے متاثرین کی تعداد تقریبا سترہ لاکھ اسی ہزار کے قریب ہے۔
جبکہ پوری دنیا میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 108815اور صحتیاب ہونے والے افراد تقریبا 403900ہے ، پوری دنیا میں مجموعی طور پر 79فیصد لوگ صحتیاب ہوئے ہیں جبکہ 21فیصد لوگ زندگی کی بازی ہارے گئے ، سب سے پہلے اس عالمی وبا سے متاثرہونے والا ملک چین ہے جہاں اکیاسی ہزار آٹھ سو سے زائد افراد متاثر ہوئے اور ستتر ہزار سے زائد صحت مند ہوئے جو دنیا میں صحت یاب ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، امریکہ میں 532870افراد متاثر ہوئے،جن میں سے 20577جاں بحق جبکہ 30450صحتیاب ہوئے ، 482849زیر علاج ہیں جن میں گیارہ ہزار سے زائد کی حالت سیریس ہے، اس کے علاوہ اٹلی میں ایک لاکھ باون ہزار سے زائد لوگوں میں کرونا وائرس پوزیٹو آیا، انیس ہزار چار سو ستر کے قریب جاں بحق اور ایک لاکھ سے زائد ابھی تک زیر علاج ہیں جن میں سے تین ہزار سے زائد لوگوں کی حالت سیریس ہے اور ایک بھی مریض صحتیاب ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں ، اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افرا د کرونا وائرس سے متاثر ہوئے جن میں سے سولہ ہزار سات سو کے قریب جاں بحق ، فرانس میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوئے جن میں سے چودہ ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔
جرمنی کرونا وائرس نے سوالا کھ سے زائد لوگو ں کو متاثر کیا اور تقریبا تین ہزار لوگ جاں بحق ہوئے، سوءٹزرلینڈ میں بائیس ہزار تین سو اٹھائیس، ساءوتھ کوریا میں دس ہزار پانچ سو جبکہ بیلجیم میں بائیس ہزار دو سو کے قریب متاثر ہوئے ہیں ، یہ کچھ ممالک ہیں جن کے اعدادو شمار یہاں لکھے ہیں کیونکہ پوری دنیا کے اعداد و شمار لکھنا ممکن نہیں ہے، یہ سب کے سب ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے اور ان کی ریسرچ ٹی میں باقاعدہ کام کر رہی ہیں لیکن یہ بھی کرونا وائرس کا ابھی تک کچھ نہیں کر پائے ہیں ، اب بات کرتے ہیں پاکستان کی ، ہمارے ملک میں اسوقت تک تقریبا پانچ ہزار لوگوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور ابھی تک چھیاسی لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 762افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔
تقریبا چارہزار سے زائد لوگ زیرعلاج ہیں ، کرونا وائرس کے خلاف سب سے پہلے سندھ حکومت حرکت میں آئی اور سب سے پہلے اسکول بند کروا دئے جو کہ نہایت اچھا فیصلہ ثابت ہوا، پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے لاک ڈاءون کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم کو کرونا کے خلاف ملکر جنگ لڑنے کی دعوت دی اور ایک سلجھے ہوئے معاملہ فہم اور دور اندیش سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا ، اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے پورے صوبے میں لاک ڈاءون کا اعلان کیا اور سیکورٹی اداروں کو سختی سے اس لاک ڈاءون پر عمل درآمد کروانے کے احکاما ت جاری کیے، کراچی کے چھ اسپتالوں میں ایک سو چار بستروں پر مشتمل آئی سی یو قائم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
مختلف ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز تیار کرنے کے احکامات دئے، کرونا ایمرجنسی فنڈ کا قیام، ایکسپو سینٹر میں بارہ سو بستروں کے ہسپتال کا قیام، ساڑھے تین ہزار سے زائد ٹیسٹس کی صلاحیت، کرونا وائرس ایمرجنسی ریلیف آرڈینینس 2020کی تجویز، جس سے غریب لوگوں کو ریلیف دینے کی بھرپور کوشش کی گئی، پورے صوبے کے غریب لوگوں میں راشن کی تقسیم، بجلی کے بلوں میں رعایت، اسکول فیسوں میں بیس فیصد کمی، پرائیوٹ اداروں کو ملازمین کو نہ نکالنے کی ہدایات اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنے والے پرائیویٹ اداروں کے لئے مراعات پیکج، غرضیکہ صوبائی حکومت ایمرجنسی میں جتنے اقدامات کر سکتی تھی وہ سندھ حکومت کی جانب سے کرنے کی بھرپور کو شش کی گئی، حکومت سندھ کے لاک ڈاءون اور دیگر اقدامات کو دیکھتے ہوئے دوسرے صوبوں نے بھی وہی پالیسی اپنائی اور اقدامات اٹھائے، کرونا وائرس کے خلاف سندھ حکومت کی کوششوں کوپوری دنیا نے سراہا، اب آجاتے ہیں مدعے کی بات کی طرف کہ میں نے یہ اتنی ساری تفصیل کیوں لکھی اور اس کے مقاصد کیا ہیں ، اس آرٹیکل کو لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کسی بھی صوبے کا ایڈمنسٹریٹر ہیڈ ہوتا ہے اور صوبے کے تمام اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں ، ہمارے ہاں ایک ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ لوگ ہمیشہ نیگیٹو سوچتے ہیں اور لکھتے ہیں۔
حکومت سندھ کی کارکردگی جو بھی ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن کرونا وائرس جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس کے خلاف سندھ حکومت کے اقدامات قابل ستائش ہیں ، اس گھمبیر صورتحال میں ڈاکٹروں ، نرسز، پیرامیڈیکل اسٹاف، سیکورٹی اداروں ، پولیس، رینجرز ، پاک فوج سمیت ہر اس شخص کوسلام پیش کرتے ہیں جو اپنی جان کی پروا کیے بنا اپنی قو م کی خدمت کررہے ہیں ، سوشل میڈیا پر لوگ سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ سندھ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ وہ صرف پھرتیاں دکھا رہے ہیں اور عملی طورپر کوئی کام نہیں ہورہا ، ایسا کچھ نہیں ہے صوبائی حکومت کے بروقت اقداما ت کا ہی نتیجہ ہے کہ کرونا وائرس اس طرح سے نہیں پھیلا جس طرح دوسرے ممالک میں پھیلا ہے اور دعا کر تے ہیں کہ نہ پھیلے اور ہم اس وبائی مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں ، ہمیشہ منفی انداز میں نہیں سوچنا چاہیے کم از کم اسوقت اور ایسے حالات میں ہ میں اپنی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور ان کی مدد کرنی چا ہیے بجائے اس کے کہ بلاوجہ کی تنقید کی جائے ، اگر کوئی شخص اچھا کام کر رہا ہے یا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کو سراہا جانا چاہیے اگر سراہ نہیں سکتے تو پھر بلاوجہ تنقید کا نشانہ بھی نہیں بنانا چاہیے ، وزیراعلیٰ صوبے کا چیف ہوتا ہے اور اس کو وہ تمام عوامی نمائندے جو عوام کا ووٹ لیکر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے وزیراعلیٰ بناتے ہیں ، یعنی وہ ہمارے ووٹوں سے ہی اس منصب پر فائز ہوتا ہے اور اس کی تذلیل کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، عوام کے ووٹ کی، عوام کی تذلیل اور مذاق اڑانے کے مترادف ہے، تنقید کی جانی چاہیے لیکن موقع محل دیکھتے ہوئے اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر۔ ختم شد ۔