اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) جی ٹوئنٹی رکن ممالک نے قرضوں کی ادائیگی کے ریلیف پلان میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا ہے۔ حکومت نے اس پیشرفت کو اہم قرار دیا ہے لیکن معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین کی سوچ اس کے برعکس ہے۔
معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی صورت حال اور عالمی معیشت میں گراوٹ کے باعث اس ریلیف سے فائدے کی امید لگانا خوش فہمی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کچھ ہی دنوں قبل اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی تھی کہ کورونا بحران کی صورت حال کے پیش نظر غریب ممالک کو قرضوں کے حوالے سے ریلیف دیا جائے۔ اس اپیل کو بہتتر گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ جی ٹوئنٹی ممالک کے گروپ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا، جن کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دیے جانے کا امکان ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خیال میں یہ وزیر اعظم کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ اس پلان کے تحت پاکستان کو مئی دو ہزار بیس سے دسمبر دو ہزار بیس تک ادا کیے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کو جامد کر دیا جائے گا۔ یہ قرضے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے نہیں بلکہ دو طرفہ معاہدے کے تحت دیے جانے والے قرضے ہیں۔
ماہرین کے خیال میں حکومت اس ریلیف پر بلاوجہ خوش ہو رہی ہے۔ یہاں تک کے حکومت کے قریبی افراد بھی اس ریلیف پر حکومتی خوشی کو بے وجہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ معاشی کونسل کے رکن اور معروف معیشت دان ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومتی حلقوں میں خوشی کے شادیانے کیوں بج رہے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق نے کہا، ”مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں معیشت کو سمجھنے والے کم لوگ ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی اس پر کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔ معاشی کونسل بھی تقریبا غیر فعال ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ کہ اگر ہمیں چین یا سعودی عرب سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے، تو یہ کونسی کمال کی بات ہے۔ ہم پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کو بتا چکے ہیں کہ ان قرضوں کی ادائیگی دیر سے ہوگی۔ ہمیں اس وقت ریلیف ملے گا جب ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلیمپٹ بینک سے لیے گئے قرضوں کو کوئی تین سال تک جامد کیا جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر اشفاق نے مزید کہا کہ ان مالیاتی اداروں نے چالاکی کی ہے، ”بجائے یہ کہ مالیاتی ادارے اپنے قرضوں پر ادائیگی کو معطل کرتے، انہوں نے جی بیس کے گروپ کے ممالک کو کہہ دیا کہ وہ ریلیف دے دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس گروپ کو درخواست کریں کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں سے کہہ کہ ہمارے قرضوں کو تین برس کے لیے معطل کریں۔ پھر ہمیں فائدہ ہوگا کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ پچپن بلین ڈالرز کے قریب ہے۔‘‘
پاکستان کی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ملک کو معیشت چلانے کے لیے امپورٹ کی ضرورت ہے، ” امپورٹ کے لیے آپ کو ڈالرز چاہیے ہیں اور ڈالرز کے لیے آپ کو قرض لینا پڑے گا۔ جس سے معاشی مسائل میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بہتر نہیں چل رہی تھی، ”لیکن حکومت نے شوگر ایکسپورٹ کے لیے سسبڈی دے کر اپنے مسائل میں اور اضافہ کیا اور پھر کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ آپ کی گروتھ مائنس میں جائے گی۔ تو مجھے نہیں لگتا کہ اس ریلیف سے کوئی بہت بڑا فائدہ ہو گا۔ شارٹ ٹرم میں کوئی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن ایکسپورٹ بالکل ختم ہے، جس کی وجہ سے کوئی بڑا فائدہ ممکن نہیں۔‘‘
کئی ماہرین کا خیال ہے معیشت کو اصل معنوں میں فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب قرضے معاف کیے جائیں کیونکہ ادائیگی کا بوجھ آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے مالیاتی امور کے ماہر شاہ فہد کا کہنا ہے کہ حکومت کو قرضے معاف کرانے کی کوشش کرنا چاہیے، ”ہمیں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر لابی کرنا چاہیے کہ غریب ممالک کے قرضے معاف کیے جائیں۔ آکسفیم سمیت مغربی دنیا میں کئی تنظیمیں بھی اس بات کی حمایت کرتی ہیں اور جس طرح جرمنی کا دوسری عالمی جنگ کے بعد پچاس فیصد کے قریب قرضہ معاف کیا گیا تھا، ہمیں کم ازکم ایسے ہی کسی پیکج کی طرف جانا چاہیے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اگر یہ ریلیف نہ بھی ملتا تو پھر بھی غریب ممالک اس وقت قرضوں کی ادائیگی کے قابل نہیں ہیں کیونکہ عالمی معیشت میں گراوٹ ہے۔ شاہ فہد ناقدین کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں، ”مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادائیگی آج نہیں تو کل کرنا ہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی یا اگلے برس بھی آپ کے پاس پیسہ کہاں سے آئے گا۔ عالمی معیشت میں گراوٹ ہے، جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ تو ایک یا دو برس بعد آپ کہاں سے پیسہ لائیں گے۔‘‘