برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا خیال ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران یورپ میں ٹیکنالوجی کے حساس سیکٹر میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ یورپی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
برطانوی خفیہ انٹیلیجنس ایجنسی ایم سولہ کے سابق سربراہ جان سیورز کا کہنا ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی کو چینی کمپنیوں سے بچانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اسکائی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس کو سرد جنگ کے دور میں سابقہ سوویت یونین کے خطرے کے طور پر نہیں لیا جا سکتا لیکن ٹیکنالوجی پر کنٹرول کے حصول کی مسابقت شدید ہو رہی ہے۔
برطانیہ کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں کہ برطانیہ ہی کی سیمی کنڈکٹر چِپ ڈیزائنر کمپنی اِمیجینیشن ٹیکنالوجی اپنا دفتر چین منتقل کرنے کی سوچ رکھتی ہے۔ اس کمپنی کو سن 2017 میں ایک ایسی پرائیویٹ ایکوئٹی نے خریدا تھا، جسے چینی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر کی انتظامیہ بھی ایسے ہی خدشات اپنے یورپی پارٹنرز پر واضح کرتی چلی آ رہی ہے۔ ان امریکی خدشات کا تعلق خاص طور پر چین کی بڑی ٹیلی موبائل کمپنی ہواوے کے یورپی براعظم میں فائیو جی نیٹ ورک منصوبے کے حوالے سے ہے۔
دوسری جانب یورپی ممالک کے چین کے ساتھ اقتصادی روابط ایک ایسے دور میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں جب معاشی گراوٹ کی فضا پیدا ہو چکی۔ اس تناظر میں یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے متنبہ کیا ہے کہ وہ اُس چینی سلسلے کو روکیں جس کے تحت اہم یورپی کمپنیوں کو خریدا جا رہا ہے۔
بدھ کو نیٹو کے سیکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے اتحاد میں شامل ریاستوں کے وزرائے دفاع کی میٹنگ میں واضح کیا تھا کہ کووڈ انیس وبا کے جیو پولیٹیکل اثرات ایسی صورت میں غیر معمولی ہو سکتے ہیں جب بعض اتحادی اپنے بنیادی اثاثے فروخت کر دیں گے۔
اس موقع پر وزرائے دفاع نے نیٹو معاہدے کی شق تین پر بھی بحث کی ہے۔ اس شق میں بحرانی دور میں حساس آلات کی فروخت کے ساتھ ساتھ اہم صنعتوں کو بچانا شامل ہے۔ اس مناسبت سے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے رومانیہ سے تعلق رکھنے والے نائب میرچا جوآنا کا کہنا ہے کہ حکومتیں جانتی ہیں کہ کون سی صنعتیں اسٹریٹیجک نوعیت کی ہیں اور ان کا ہر ممکن تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔
یورپی حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ عرصے میں یورپ میں چینی اقتصادی سرگرمیاں بڑھی ہیں اور یہ اس براعظم کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم ادارے کلینگن ڈیل سینٹر کے ایک سینیئر محقق فرانز پال فان ڈیئر پُٹن نے اپنی ایک ریسرچ میں یورپ کے بعض اسٹریٹیجک کاروباری اداروں میں چین کی معاشی دلچسپی کا احوال بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق یونان کی کنٹینر شپنگ کی بڑی کمپنی کوسکو کے حصص خرید کر بیجنگ حکومت نے اپنے قدم یونان کے علاوہ بیلجیم اور اسپین میں بھی جما لیے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ یورپی حکومتیں اس چیلنج کا کوئی مثبت اور مناسب حل تلاش کر لیں گی۔