جج نہیں فیصلے بولنے چاہیں

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : شہزاد حسین بھٹی

آئین، قانون اور عدالت کے معاملات میں کس بات کی کیا تشریح ہو مگر جس طرح ہمارے حالات ہیں اس سے بدترین حالات میں لاقانونیت سے تنگ آیا بادشاہ حکومت کی رٹ قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو کر اپنے وزیراعظم کے ساتھ محل سے نکلا اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ جنگل میں اس نے بیس پچیس گدھے ایک قطار میں چلتے دیکھے تو بڑا حیران ہوا کہ اس قدر ڈسپلن اور وہ بھی گدھوں میں، گھوڑے کو روک کر اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گدھوں کے آخر میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص بادشاہ کے اس انہماک پر اپنے گدھوں کو چھوڑ کر رک گیا اور پوچھا آپ اس قدر حیران کیوں ہو رہے ہیں بادشاہ نے کہا تم نے انہیں یہ ڈسپلن کیسے سکھایا اور اور اگر اس کی خلاف ورزی پر یہ جنگل میں بکھر جائیں تو کیا کرو گے؟ کمہار بولا منصور یہ گدھے ہیں جو قطار سے باہر نکلے اسے ایک ڈنڈا مارتا ہوں اور وہ قطار میں آجاتا ہے ان کی کیا مجال کہ یہ جنگل میں بکھریں ہاں اگر میں قطار توڑنے والے سے رعایت کروں تو پھر آپ کی بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ بادشاہ نے کہا میرے ملک میںعدل و انصاف نے ہر شے تہس نہس کر دی ہے کیسے ٹھیک ہو گا ۔ کمہار بولا قانون نافذ کرو، انصاف کرو ٹھیک ہو جائیگا۔ بادشاہ بولا تم مجھے ٹھیک کر کے دکھا دو۔ کمہار نے چیلنج قبول کیا اور عدالت لگ گئی۔ کمہار منصف کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ چوری کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ کمہار نے دونوں جانب کے دلائل سنے اور فیصلہ دیا کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جلاد نے وزیراعظم کی طرف دیکھا جنہوں نے آنکھ مار کر فیصلے پر عمل نہ کرنے کا پیغام دیا۔وزیراعظم آگے بڑھا منصف کی کرسی کے قریب آ کر اس کے کان میں کہا جج صاحب جس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے وہ اپنا بندہ ہے۔ کمہار نے تیسری بار فیصلہ سنایا حکم ہوا چور کا ہاتھ اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے۔ جلاد نے بادشاہ کی طرف دیکھا فیصلہ پر عملدرآمد کا اشارہ ہوا۔چور کا ہاتھ اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی گئی اور پھر ملک میں ایسا امن ہوا کہ پورا معاشرہ سدھر گیا۔

پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ مقدمات کو نمٹانے کے حوالے سے زیادہ روشن نہیں ہے بلکہ مقدمات کو لٹکانے کی شہرت میں ہماری عدلیہ کے ذمہ دار بھی کئی بار بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سارے عدالتی نظام کے تطہیر سے گزارنے کے اعلانات بھی ہوئے۔ عدل کی اہمیت کے پیش نظر اسی شعبہ کو معاشرے میں احترام اور وقار بھی ملا مگر معاشرتی زندگی پر اس شعبے کے مثبت سے زیادہ منفی مضرات ہوئے۔ اس دوران کئی روایات ٹوٹیں یعنی ججز کے بارے میں یہ محاورے بنے تھے کہ ”وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں” خود ججز نے اس محاورے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور اس رسم بد کہ شروع کرنے کا سہرا آسانی سے نسیم حسن شاہ کے سر باندھا جا سکتا ہے جنہوں نے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم ہٹانے کے خلاف مقدمہ میں ماضی کی ساری روایات توڑ کر خود بدلنے کی ایسی رسم کا آغاز کیا کہ عدلیہ کے احترام اور ججوں کے مقام کو ملحوظ نظر رکھ کر لکھی جانے والی وہ کتاب بالکل غیر متعلق ہو گئی جو عدلیہ کا حصہ بننے والے کسی جج کو اس کا کوئی دانشور دوست تحفہ دے دیتا تھا اور جس میں باقی باتوں کے علاوہ یہ بات سب سے اہم تھی کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا ایک گلاس ضرور رکھے جونہی سماعت شروع ہو تو ایک گھونٹ پانی منہ میں پینے کی غرض سے نہیں بلکہ اسے منہ میں روکے رکھنے کی غرض سے اس وقت تک رکھے جب تک وہ برداشت کر سکتا ہے۔

جب بات برداشت سے باہر ہو جائے تو اسے حلق سے اتار کر دوسرا گھونٹ پانی منہ میں ڈال لے اور یہ کام وقفے وقفے سے دوران سماعت جاری رکھے اگر گلاس سے پانی ختم ہو جائے تو دوسرا گلاس پانی کا منگوا کر اپنی اس پریکٹس کو جاری رکھے مقصد اس کا سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ جج خاموش رہنے پر مجبور ہو وہ بولے نہیں صرف سنے مگر نسیم حسن شاہ نے پانی کے گلاس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہ سمجھی بلکہ اسے اپنے خیالات عالیہ کی ادائیگی میں رکاوٹ سمجھا اور پھر وہ دوران سماعت مقدمہ ایسی ایسی درفتطنی لگاتے کہ صبح وہ پریس کی زینت بن جاتی۔ ان سے پہلے جسٹس ایم آر کیانی کے بولنے اور دلیری سے بولنے کے چرچے تھے مگر وہ کبھی عدالت میں مقدمات کی سماعت کے دوران نہیں بولے بلکہ باہر کسی تقریب یا فنکشن میں بولتے۔ افتخار محمد چودھری نے چیف جسٹس آف پاکستان بن کر نسیم حسن شاہ کی۔

اس رسم بد کو اتنا پانی دیا اتنی کھاد ڈالی کہ سپریم کورٹ میں جانے والے اپنی عزت بچانے کیلئے صدقہ خیرات کر کے عدالت جانے پر شریف آدمی کی توہین و تضحیک، جیل بھیجنے کی دھمکیاں اور نوکری سے چھٹی کرانے سے لیکر ہتھکڑیاں لگوا کر ذلیل کرنے تک کی زبان اتنے تواتر سے چلائی کہ انصاف کے حصول سے لوگ تائب ہونے لگے۔ اس کی افتخار محمد چودھری نے ہرگز پرواہ نہ کی اور جہاں کسی بے عزتی کرنے کو دل چاہا اور اسے کسی زیر سماعت مقدمہ میں عدالت میں نہ پا کر اسے کسی ”سوموٹو” میں بلا کر بے عزت کر دیا اخبارات میں ایسی خبریں لگوا کر اہم ازاں بعد ٹیلی ویڑن کے نئے چینلز پر اپنے ٹکر چلوا کر وہ خوش ہوتے تھے۔ ان کے نزدیک انصاف کی صرف اتنی اہمیت تھی کہ انہیں ان کی مرضی کاانصاف ضرور ملنا چاہئیے چنانچہ سپریم کورٹ کا فل بنچ ہفتوں نہیں مہینوں صرف ان کو انصاف فراہم کا مقدمہ ہی سننے اور عملاً ان کو انصاف دینے کیلئے صبح سے شام تک سپریم کورٹ صرف ایک مقدمہ سنتی اور باقی پورے پاکستان کے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والا ادارہ محدود بہت ہی محدود سرگرمی میں جت گیا۔

ملک اس وقت عملاً کروناء وائرس کی وجہ سے حالت جنگ میں ہے۔پوری دنیا اس عفریت سے نمٹنے کے لیے اپنی ذہانت اور وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ امریکہ ، اٹلی، سپین اور برطانیہ جیسے ممالک کا نظام صحت جدیدطبعی سہولیات کے باوجود کریش کر گیا ہے۔ اموات کی تعداد ہے کہ شمار میں نہیںآ رہی ایسے حالات میںہماری حکومت اورمحکمہ صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے این ڈی ایم اے کے ساتھ ملکر کرونا سے نمٹنے کے حوالے سے جو اقدامات اب تک کیے ہیں وہ قابل تعریف ہیں جن کی جتنی بھی توصیف کی جائے کم ہے۔ ایسے حالات میں جب ایک قابل ڈاکڑ حالات کو کنڑول کیے ہوئے ہے اس کی کارکردگی سے اعلیٰ عدالت کا مطمئن نہ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔چیف جسٹس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اپنے دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں امداد اور کنڑول کی کوششوں کے سلسلے میں بہت بہتر کام کر رہا ہے۔

موجودہ حکومت ایک جانب معاشی بحران کا سامنا کر رہی ہے جو پچھلی حکومتوں کا تحفہ ہے۔ چالیس سال حکومت کرنے والوں نے موٹر ویز، اورنج ٹرین اور میڑوز تو دنیا کو دیکھانے کے لیے بنا دی ہیں لیکن جو حقیقی انسانیت کی فلاح کے لیے کیے جانے والے کام تھے انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا کیونکہ ان اقدامات سے ووٹ کا حصول ممکن نہ تھا۔حکومت نے این ڈی ایم اے سے ملکر چائینہ سے ہنگامی طور پر طبعی آلات اور وینٹی لیٹر منگوا کر اچھی تیاری کر رکھی ہے۔جو سوالات چیف جسٹس صحت کے حوالے سے آج پوچھ رہے ہیںکاش وہ خواب غفلت سے جاگے ہوتے اور گذشتہ چالیس سال حکومت کرنے والے اس ملک کے نام نہاد لیڈروںسے پوچھتے ۔ تھرپارکر میں انسانیت بھوک سے تڑپتی رہی لیکن کسی کا ضمیر نہ جاگا اورنہ ہی کسی نے سوموٹو لیا۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ عدلیہ کے معززجج ہنگامی حالت میںحکومتی صفوں میں دراڑ ڈال کر انتشار کیوں پھیلانا چاہتے ہیں؟

کیا وہ جنگوں کے دوران جرنیلوں کو بھی جنگ لڑنے کے لیے طلب کرنا شروع کر دینگے؟ تاکہ وہ عدلیہ کو یہ بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ریکوڈیک میں عدلیہ کی مداخلت سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔عدالتوں کا کام ٹرانسفر اور پوسٹنگ نہیں ہے۔ ایم ڈی پی آئی اے کو ہٹا دو، وزیرا عظم کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کو ہٹا دو اور کبھی وزیر اعلی بلوچستان کے تمام معاونین کو ہٹا د و۔ان اقدامات سے ہراسمنٹ پھیلتی ہے جو اس جنگ میں حکومتی ٹیم کا مورال ڈاون کر سکتی ہے۔ گذشتہ روز ممتاز قانون دان اعتراز احسن نے بھی اس تناظر میں ایک ٹی وی شو میں کہا کہ” میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں ، کسی بھی سپریم کورٹ کے جج سے زیادہ میرا تجربہ ہے لیکن مجھے نہیںپتہ کہ کرونا کیا ہے۔ خدارا سیاسی حکومت کو کام کرنے دیں ،کرونا سے ڈیل کرنا حکومت کا کام ہے ججز کا نہیں”

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی