چین (اصل میڈیا ڈیسک) نوول کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا تھا جس کے بعد اس نے پوری دنیا پر حملہ کیا لیکن چین نے سر توڑ حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اس پر قابو پالیا ہے اور اب وہاں معمولات زندگی بھی بحال ہو رہے ہیں۔
چین نے جتنی تیزی کے ساتھ اور جیسا سخت لاک ڈاؤن کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ امریکا برطانیہ اٹلی، اسپین و دیگر مغربی ملکوں نے شہری آزادیوں کے احترام میں لاک ڈاؤن کرنے میں اتنی دیر لگا دی کہ کورونا بے قابو ہو گیا۔
چین میں پوری آبادیوں کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے، ٹیسٹ مثبت آتے ہی فوراً سرکاری مراکز میں قرنطینہ کر دیا گیا، اس طرح کورونا کی علامت ظاہر ہونے اور اسپتال میں داخل ہونے کا دورانیہ دو دن تک محدود رہا۔
امریکا اٹلی اور دیگر ممالک میں صرف ان لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے جن میں علامات ظاہر ہوئیں اور پھر وائرس سے متاثر ہونے اور اسپتالوں میں داخل ہونے کا عرصہ پندرہ دن تک چلا گیا اس دوران متاثرہ فرد وائرس پھیلاتا رہا۔
امریکا میں مفت ٹیسٹنگ سرکاری لیبارٹریوں تک محدود رہی جب کہ چین میں کورونا ٹیسٹ ہر جگہ مفت ہوئے۔
چین نے دن رات ایک کر کے چند دنوں میں ایسے اسپتال کھڑے کر دیے جو صرف اس وبا سے نمٹنے کے لیے مخصوص تھے، 1000 بستروں کا اسپتال چھ دن، جب کہ 1300 بستروں کا اسپتال 15 دن میں بنایا گیا۔
امریکا اور اٹلی میں ہیلتھ کیئر سسٹم کورونا کا دباؤ آنے کے بعد کم پڑ گیا۔ ڈاکٹرز کو کئی بار کسی ایک مریض کو بچانے اور باقیوں کو مرتا چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
وائرس کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے چین نے ٹرینیں، بسیں اور پبلک ٹرانسپورٹ فوراً بند کر دیں جب کہ امریکا اور اٹلی میں فوراً ایسا نہیں کیا جا سکا۔
چین میں کورونا مریضوں کا سی ٹی اسکین کرنے کی رفتار 10 منٹ فی اسکین تھی جب کہ امریکا اور اٹلی میں یہ رفتار نصف گھنٹے سے زائد تھی۔
چینی سیکیورٹی اہلکاروں نے لوگوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا موقع نہیں دیا جب کہ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد سختی سے نہیں کرایا جا سکا۔
چین نے لاک ڈاؤن میں پوری آبادیوں کو گھروں تک خوراک فراہم کی، اس کام میں امریکا اور یورپی ملک چین سے صرف پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے رہ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ چین میں کورونا وائرس کے 80 ہزار سے بھی زائد کیسز ہونے کے باوجود وہاں قابو پا لیا گیا اور لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کروا کر وبا کے پھیلاؤ کو روکا گیا۔