تمام ممالک دنیا بھر میں اپنے ملک کی جانب سے ایک سفیر کی تقرری کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں پر موجود اپنی کمیونٹی اور اپنے ملکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سفارتخانوں میں اکثر ایسے لوگوں کو بطور سفیر تعینات کیا گیا ہے جن کو سفارتکاری کی الف ب سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی یا پھر ان کی اہلیت ہی اس عہدے کے مطابق نہیں تھی۔ اس صورتحال نے ایک طرف تو تارکین وطن پاکستانیوں کو ہمیشہ ہی آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے ۔ اور دوسری جانب ملکی مفادات کو بھی داو پر لگائے رکھا ہے۔
کیونکہ وہ نااہل سفارتکار کسی نہ کسی سیاسی بنیاد پر یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر افراد کے ملکی منظر نامے سے ہٹنے کا وقتی جواز ہی ہوا کرتے تھے ۔ کہ جاو کھاو پیو سیر سپاٹا کرو اور چھٹی مناو، جیسا دورانیہ گزار کر پھر سے پاکستان آ کر کھیل وہیں سے شروع کرو جہاں سے چھوڑا تھا ۔۔ اسی قسم کے معاملات ہمیں 1998ء سے فرانس آنے کے بعد 2012ء تک دیکھنے کو ملتے رہے ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں یاد تک نہیں کہ اس دور میں فرانس میں ہمارے سفیران کون کون سی عظیم ہستیاں رہی ہیں اور انہوں نے کون کون سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔
فرانس میں دو دہائیاں گزار کر ہمیں اپنے سفارت خانے کے حوالے سے اگر کسی پہلے سفیر کا نام یاد ہے تو وہ تھے جناب غالب اقبال صاحب (2013ء تا 2016ء)۔ جنہیں دیکھ سن کر ہمیں معلوم ہوا ، یہ احساس جاگا کہ ہم پاکستانی یہاں فرانس میں لاوارث نہیں ہیں ۔ ہماری آواز سننے والا بھی یہاں کوئی ہے ۔ دستاویزات کی تیاری میں درپیش مسائل ہوں یا پھر اہم مواقع پر اپنی کمیونٹی کے سامنے آنا یا ان سے رابطہ کرنا بلاشبہ غالب اقبال صاحب اور ان کی ٹیم نے ہمیشہ ہی اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں انجام دیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام کیساتھ کیا جاتا ہے ۔ یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ عزت انہوں نے اپنے رویئے اور اپنی کارکردگی سے کمائی ہے ۔
ان کا اپنا ای میل ایڈریس پبلک کرنا ، ہر محفل میں کمیونٹی کو خود دعوت دینا اور اس بات پر اصرار کرنا کہ میں آپ سے ایک کلک کی دوری پر ہوں ، آپ کسی بھی وقت 24 گھنٹے، ساتوں دن مجھے میل کر سکتے ہیں ۔ اپنے مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں ۔ اور نہ صرف کہنا بلکہ ہر میل کا ایک دو روز کے اندر جواب بھیجنا بھی انہیں کی خصوصیت رہا ہے ۔ جو انہیں ان سے پہلے فرانس آنے والے سفیران سے جدا پہچان دلاتا ہے ۔ اب اگر بات کریں ان کے بعد آنے والے سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب (2016ء تا اب تک جاری) کی تو بلاشبہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفیروں کے مقابلے میں فرانس میں متعین سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب نے جس طرح سے کرونا کرائیسس اور اس سے پہلے تارکین وطن کے دوسرے اہم مسائل پر اپنا کردار ادا کیا ہے بلاشبہ وہ لائق تحسین ہے ۔
بطور کالمنگار میرا کام قصیدہ گوئی کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن اس میں حوصلہ افزائی کا عنصر بہر حال موجود ہونا چاہیئے ۔ پاک فرانس معاہدے ہوں یا دستاویزی معاملات، پاک کمیونٹی کی شکایات پر متحرک ہونا ہو یا ان کی مدد کرنا ، پاکستانیوں کے اموات اور ائیر لائنز کے مسائل ہوں ،
معین الحق صاحب نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ بہت سی باتوں اور عوامی رابطوں میں وہ غالب اقبال صاحب جیسا رویہ نہیں اپنا سکے شاید اس کی وجہ ان کے گرد موجود مخصوص ٹولے کی ذہنی سطح ہو ۔ جس نے انہیں عام پاکستانی کمیونٹی کے قریب ہی نہیں ہونے دیا ۔ نہ ہی انہیں عام لوگوں کے مسائل سے براہ راست واقف ہونے دیا ۔ کیونکہ آج تک ان کا ذاتی رابطہ میل بھی کسی کے پاس موجود نہیں ہے ۔ اس لیئے ان تک اپنے مسائل پہنچانا ہر ایک کے بس میں بالکل نہیں ہے ۔ اور تو اور مجھ جیسی لکھنے والی تک کے پاس ان کا ای میل اور رابطہ نمبر نہیں ہے ۔ جس سے انہیں کسی معاملے کی آگاہی براہ راست پہنچائی جا سکے ۔ اس لیئے جو کچھ ان تک ان کے مخصوص ذرائع سے پہنچتا ہے اس پر ان کا رد عمل ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ۔ جو کہ کافی حد تک مثبت بھی ہوتا ہے۔
ہم پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے سفیر پاکستان معین الحق صاحب کو ان کے اچھی کارکردگی پر مبارکبار پیش کرتے ہیں اور اس اچھی کارکرگی کو بہترین کارکردگی میں ڈھلتے ہوئے دیکھنے کے لیئے پر امید ہیں ۔ اس کے لیئے انہیں عام لوگوں کے قریب آنا ہو گا ۔ عام لوگوں کیساتھ ہر معاملے میں زیادہ موثر انداز میں شامل کرنا ہو گا ۔ جو وہ کر سکتے ہیں تاکہ ان کا نام ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی غالب اقبال صاحب جیسے بہترین سفیروں کی فہرست میں زندہ رہے۔