میری نظر ہو نصیب
Posted on April 21, 2020 By Majid Khan کالم
Imran Khan
تحریر : شاہ بانو میر
سب کو میری نظر ہو نصیب
رات کا پُر وقار سنّاٹا
گونجتی ہے صدائے پائے نجوم
اصل میں گونج ہے سکوت کا گیت
اور پھر کس قدر لطیف و بسیط
گونج ہی گونج کبریا کی ذات
گونج ہی گونج ماورائے حیات
یہ حقیقت مگر کسے معلوم
زندگی گونج کے سوا کیا ہے
ایک انسان دوسرے کا نقیب
پھول کی گونج پھول کی مہکار
اور یہی ہے اثاثہ گلزار
ایک اک پھول گلستاں کا غرور
ایک اک آدمی جہاں کا غرور
کاش سب کو مری نظر ہو نصیب
احمد ندیم قاسمی
کل ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں اس ملک کے
دبنگ وزیر اعظم کی عاجزانہ وڈیو منظر عام پر آئی
وہ گہری سوچ میں غلطاں اور آنکھوں میں نمی
ہاتھ میں تسبیح اور رنج و الم کے گہرے سائے پیشانی پر
پچھلا منظر بڑا دلفریب اور خوشگوار تھا
گل و گلزار جیسے محل نما گھر میں زندگی گزار رہا ہے
لیکن
خاموش بیٹھا سوچتا ہوا
بے ساختہ بہتے آنسو کس بات کے غمّاز ہیں؟
اس کو آخر کیا غم ہے
جو اس دولت کدے میں بھی اس کو رُلا گئے
میرا گمان ہے
کہ
یہ غم دو قسم کے ہیں
ایک قسم اس ملک کو اس عوام کو کس طرح اس مقام تک پہنچاؤں
جس کا وعدہ بھی کر رکھا ہے
اور
نیت بھی توانا ہے
لیکن
راستے اتنے پُرخطر ہیں
اور
ایسے سیاسی دھاگوں سے الجھے ہوئے خاردار ہوں گے
اس کا اندازہ نہیں تھا
ساتھی بار بار تبدیل کیے
مگر
عوام کی خوشحالی کیلئے مطلوبہ معیار نہیں ملا
غربت افلاس بھوک نے جیسے گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں
رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی
عوام بات سننے کو محفوظ ہونے کو تیار نہیں
اور
کرونا باہر نکلے کسی کو چھوڑنے پر راضی نہیں
کیسے کیسے ان کو سمجھاؤں
کیسے ان سب کو اس عذاب سے چھپا دوں کہیں بچا لوں
کیوں نہیں میری نیت پر اور بات پر یقین کرتے
جو سراسر ان کی بھلائی کیلئے ہے
مومن وہی ہے
جو باہر تو غالب اور برجستہ جواب دینے والا ہو
لیکن
جب وہ اکیلا ہو
اپنے رب کے قریب ہو
دل میں اپنے سچے رب سےگفتگو بھی جاری ہو
خود کو
عاجز حقیر فقیر ادنیٰ سمجھ کر روئے
ایسا خاموش رونا رب کو بہت عزیز ہے
وہ ایک ایک آنسو کا قدردان ہے
خوش نصیب ہے عمران خان
اس کے آنسو پر قوم کی ہر
ماں
بہن
بیٹی
پُرنم
اور
ہر ذی شعور آدمی اداس ہو جاتا ہے
عمران خان کی اتنی گہری اداسی کا سبب کیا ہے؟
یہ تلخ حقیقت ہے
کہ
کوئی بھی جماعت ہو
ادارہ ہو
تنظیم ہو
شہر صوبہ یا ملک ہو
اسکو چلانے کیلئے
تن تنہا کوئی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا
اس کے لئے ایک ٹیم ضروری ہے
اور
یہ سچ پچھلے سچ سے بھی تلخ ہے
کہ
مفاد پرستوں کے ٹولے عیاری مکاری کے استاد
ایسے ہی نئے ادارے اور ضرورتمندوں کے لئے تاک میں ہوتے ہیں
لہٰذا
یہ دنیا کا مانا ہوا سچ ہے
کہ
ہر تنظیم میں شور مچانے کر ظاہر ہونے والے زیادہ
اور
کام کرنے والے چند ایک ہوتے ہیں
لیکن
جماعت کا ظاہری رعب دبدبہ قائم کرنے کے لئے
بے شمار
نااہلوں کو بھرتی کر کے حجم بڑہایا جاتا ہے
شروع کے ساتھیوں کی قدر و قیمت بعد کے آنے والے نودولتیوں
کے ہاتھ نوٹوں کے خرچ سے کم ہو جاتی ہے
یوں وہ پس پردہ چلے جاتے ہیں
لیکن
یہ سارے کا سارا نیا ہجوم وزارت تک تو پہنچا دیتا ہے
لیکن
قدم قدم پر سودے بازی اور جھکنا پڑتا ہے
اثر بھی ان کاجھاگ کی طرح ہوتا ہے
پھیلاؤ میں زیادہ اور تاثیر میں بے اثر
آج
شائد عمران خان ماضی کی پارٹی کے مخلص ساتھیوں کو یاد کر کے
موجودہ پارٹی کی کمزور کارکردگی سے پریشان ہوں
کرونا کا وار مہلک بھی ہے اور کاری بھی
بڑی طاقتوں نے عمران خان کی درخواست پر پاکستان سمیت کئی ممالک کو
قرضوں کی وصولی میں مہلت دے کر
گرتی ہوئی تباہ حال معیشت کو عارضی سہارا تو دیا ہے
لیکن
ملکی وسائل پھر بھی محدود اور اخراجات بے حساب ہیں
در در جھولی پھیلائے کشکول وہ آخر کس کیلئےپھیلا رہا ہے؟
اس عوام اور اسکو دینے کیلئے خوشحالی کیلئے
ایسے وقت میں بھی چاروں جانب سے تابڑ توڑ سیاسی حملے ؟
مانتی ہوں کہ
ماضی میں یہ غلطی عمران خان کر چکا تب بھی لکھا کرتی تھی
کہ
نواز حکومت کو وقت پورا کرنے دیا جائے
تا کہ
کل آپکی حکومت کےراستوں میں
سیاسی خار کم سے کم بچھائیں جائیں
کل پی ٹی آئی نے ایک نہیں سنی
آج اپوزیشن نہیں سن رہی
آج عمران خان کے آنسو شائد یہ سوچ کر بھی بہہ رہے ہوں
کیسا پاکستان سوچا تھا
کیا سے کیا ہوتا جا رہا ہے؟
ملک میں انارکی کا جن بوتل سے باہر ایسا آیا
کہ
واپس جانے کا نام نہیں لے رہا
ہر رکن کا اس پارٹی میں شمولیت پر وعدہ تھا
کہ
نیا پاکستان بنا کے دم لیں گے
لیکن
اکثریت نے نئے نئے گھر پر ہی اکتفا کر لئے
پارٹی اور نظریہ پیچھے کر دیا
ماضی کے تجربات سے
کپتان اپنے سائے سے بھی محتاط ہے
بے فکر انسان بے باک انسان بے تکلف انسان کو
حکومتی تجربے نے آہستہ آہستہ
سوچنا سمجھنا اور پھر بولنا سکھا دیا
ہجوم میں رہنے والا
جب
پُرہجوم ملک کا وزیر اعظم بنا تو
ذات میں تنہا ہوگیا
اعتبار کرے تو کس پر؟
سامنے دکھائی دینے والے عہدیدار باتوں کے شاہکار ہیں
عمران خان
اس ملک کے زمینی حقائق اور مسائل
ترقی یافتہ ملکوں سے پڑہے ہوئے نہیں جان سکتے
تحریک انصاف
ابھی تک پارٹی صرف
ایک واحد انسان کے گرد گھوم رہی ہے
اس کا نظریہ
محنت اسکی
رات و دن کا غور و فکر اس کا
ہمیں نازک وقت میں سمجھنا ہوگا
یہ شخص اس وقت ملک کیلئے
جسم اور روح کے رشتے کی طرح لازم و ملزوم ہے
اس وقت سیاسی شخصیات میں سب سے پاورفل ہے
کیونکہ
پاکستان جس نے ماضی میں بے شمار معاہدات کر رکھے تھے
جن کی تکمیل پر سیاسی اثرات کم ہوں
اس کے لئے ایک سیاسی چہرہ چاہیے تھا
جس کے ساتھ اداروں کی گہری ہم آہنگی ہو
عمران خان کی صورت وہ مل گیا
عمران خان بھی
اپنی سوچ پر ایمان کی حد تک پریقین تھا
کہ
وہ آکر ملک کی لوٹ مار ختم کر کے
عوام تک ہر ضروریات زندگی کی رسائی کرے گا
لیکن
اس ملک کی عوام کے دکھ اتنے گہرے اور زیادہ ہیں
کہ
عمران خان ادراک نہیں کر سکا
اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے بعد
قرآن ہمیں بتاتا ہے
کہ
حکومت وقت کے حکمران کی اطاعت کی جائے
افسوس ملک میں برداشت کی بہت کمی ہے
ایک نشریاتی ادارہ اگر
حکومت مخالف ہے
تو ایسے ایسے خوفناک تجزیہ دیتا ہے
اللہ کی پناہ
دوسرا چینل اگر حکومتی تائید رکھتا ہے
تو
حکومتی کارکردگی پر
ایسے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے دکھائی دیتا ہے
کہ
بات پاکستان کی ہورہی ہے؟
شبہہ ہونے لگتا ہے
قرآن پاک کی تعلیم ترجمے کے ساتھ
اس قوم کے لیے کامیابی کا واحد حل ہے
آج وزیر اعظم کیوں تنہا بیٹھ کر اداس ہے پریشان ہے
نمدیدہ ہے
اسلئے کہ
اسکی جماعت کے کچھ لوگوں میں اگر صفات
ابوبکرؓ و عمرؓ علیؓ و عثمانؓ
ہوتیں
تو
کپتان اداس نہ ہوتا
ساتھیوں کے پرخلوص ساتھ سے
اس ملک کو عظیم نہیں
عظیم تر بناتا
آج کپتان کی طرح
یونہی
ہر تحریکی کارکن تنہا بیٹھ کر
اپنی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ تو لے
جواب ازخود مل جائے گا
کہ
کپتان رو کیوں رہا تھا ؟
اس کےبہتے آنسو ہم سے کہہ رہے ہیں
کہ
ان شاء اللہ
پاکستان خوشحال کامیاب عظیم بن کر رہے گا
اگر
سب کو مری نظر ہو نصیب
Shah Bano Mir
تحریر : شاہ بانو میر
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com