پوری دنیا میں اس وقت کرونا وباء نے اپنے خونی پنجے گاڑھ رکھے ہیں ہر ملک میں افرتفری۔بے روزگاری اور موت کا خوف خالی سڑکوں پر راج کر رہا ہے جہاں کبھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی وہاں کرونا کے خوف سے سناٹا ہے کہیں قہقے سنائی دیتے ہیں اور نہ کہیں بحث و تکرار ہو رہی ہے۔ملک پاکستان میں بھی 26 فروری کو جب کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا تو ایک ہلچل سی دکھائی دی اور سوشل میڈیا ۔پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا نے اپنے اپنے طور پر اسکا خوف انسانوں کے دلوں میں بٹھانا شروع کیا جو کرونا کے بارے کچھ بھی نہیں جانتا تھا وہ بھی سوشل میڈیا پر اپنے انداز میں تبصرہ کرتے دکھائی دیا ۔نیم حیکم تے خطرہ جان قسم کے کئی ماہر اموات کرونا سے بچاؤ کے ٹوٹکے بتاتے پائے گئے جیسے جیسے نئے دن کی صبح آتی گئی ویسے ویسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔وفاقی و صوبائی حکومتیں ایک پیج پر دکھائی نہ دیں۔
اپوزیشن جماعتیں کرفیو نما لاک ڈاؤن لگانے کے مشورے دینے لگیں وہیں عوام ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کو تسلیم تو کرتے مگر عمل نہ کرتے دکھائی دیے ہر شخص کرونا کے بارے بات کرتے پایا جا رہا تھا ہر روز وفاقی و صوبائی حکومتیں کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بتا رہیں تھی مگر بڑے شہروں کو چھوڑ کر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی عوام ان احکامات و ہدایات کو ہوا میں اڑائے جا رہی تھی چائے خانے بھی آباد تھے اور ہوٹلوں پر رش بھی چل رہا تھا اور پھر تعداد بڑھتی گئی اور حکومت کی طرف سے نارمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا جسے اس ملک کی غیور عوام نے سرے سے ہی قبول نہ کیا بلکہ حکم عدولی کر کے نہ صرف دفعہ 144 کی خلاف ورزیاں کی جانے لگیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاحال جاری ہیں لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہیں میرے ملک کے دولت مندوں نے رقم کو ٹھکانے لگاتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی کا طوفان کھڑا کردیا جس کے پاس جتنی طاقت تھی یا جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتا تھا۔
اس نے کمال ایمانداری سے اس کار خیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ان ذخیرہ اندوزی کرنے والوں میں وفاق کے وزیر ۔مشیر سےلیکر چھوٹے دوکاندار تک شامل تھے دیگر ممالک کے لوگ ان حالات میں سب کچھ ختم کر کے عوامی ایثار اور قربانی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے ہمارے ملک کے سرمایہ دار موقع کا فائدہ اٹھا کبھی آٹا تو کبھی چینی کا بحران پیدا کیے جا رہے تھے جس کے نقصانات آج بھی پاکستان کی غریب عوام بھگت رہی ہے.,بھگتتی رہے گی بھگتتی چلی آ رہی ہے جس طرح کچھ جانوروں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ خالی ہڈی منہ میں دبائے پھرتے رہتے ہیں دراصل انہیں اس ہڈی سے ۔۔چسی۔۔آ رہی ہوتی ہے اور پھنکنا وہ کسی صورت نہیں چاہتے ہماری بھی بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں کچھ وزیروں مشیروں۔کچھ چھوٹے بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کو ہڈی والی چس پڑ چکی ہے اور یہ ایسا مافیاء ہے جسکی سیاست۔بیوروکریسی سمیت تمام اداروں میں جان پہچان ہے ذاتی فائدے کے لیے حکومتوں کو بلیک میل کر کے بڑے بڑے فائدے اٹھاتے چلے آ رہے ہیں اور کوئی بریالذمہ نہیں ایسے لوگ ہردور میں رہے اور ہیں۔پاکستان میں جونہی لاک ڈاؤن ہوا ہڈی والے سرگرم ہو گئے اور اچانک آٹا۔چینی۔گھی۔مرچ مصالوں۔دالوں سمیت ہر وہ چیز جو روزمرہ کی ضرورت تھی ہر چیز کو آگ لگ کئی ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگے غریب مزدور زمین پر بیٹھ کر صرف دیکھنے کی حد تک رہ گئے۔
اس دوران وزیراعظم پاکستان نے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں اور منافع خور مافیاء کے خلاف سخت کاروائیاں کرنے کا عندیہ دیا کچھ محکموں کو عوامی مفاد کی خاطر ایسے تمام عوام دشمن عناصر پر ٹوٹ پڑنے اور سخت سزاؤں کا حکم دیا گیا مگر حکومت۔کو یہاں بھی منہ کی کھانا پڑی کیونکہ جب تک کسی بھی ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور اسکے اسسٹنٹ کمشنر۔محکمہ فوڈ کے نمکے تھکے ہارے ملازمین ساتھ نہ دیں جب تک کنٹرول پرائس مجسٹریٹ ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھ کر چیکنگ نہ۔۔کرے کسی بھی صورت مہنگائی کنٹرول نہیں ہو سکتی اور اس بار بھی یہی ہوا اے سی صاحبان نے اکا دوکا کاروائی کر کے خاموشی اختیار کر لی پرائیس مجسٹریٹ خانہ پری کے لیے آئے مگر چھوٹے دوکانداروں کو بھاری جرمانے کر کے غائب ہو گئے محکمہ فوڈ کے ملازمین ہر جگہ نوٹوں کے قدموں میں ضمیر رکھ کے لمبی تان کر سو گیا جسکی وجہ سے چند ایک چھوڑ کر ذخیرہ اندوز نہیں پکڑے گئے جو پکڑے گئے انکی نشاہدیاں بھی جرنلسٹوں نے کیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر عوامی مفادات کے پیش نظر اپنے حصے کا بھرپور انداز میں کام کیا۔جس کا اجر تو انہیں اللہ میاں دے گا مگر پورے ملک کی انتظامیہ نے کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور کہیں بھی قابل ذکر بات نہ کی شاید تاجروں کے نمائندے مل ملا کر مٹھائی لے چکے تھے۔
حکومت ریلیف ریلف کی رٹ لگائے جا رہی ہے۔مگر مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی گھی۔چینی۔دالیں۔مرچ مصالے وغیرہ آج بھی غریبوں مزدوروں کو خودکشیوں کی۔طرف لیجا رہے ہیں ۔جس کے پاس سبزی ہے اسکا اپنا ریٹ ہے تو فروٹ والا بھی کھال اتارنے سے باز نہیں آیا ۔حکومت نے اب 19 اشیاء خوردونوش پر سبسڈی دینے کا پروگرام دیا ہے اور یہ صرف یوٹیلٹی سٹوروں سے سامان ملے گا مگر کل تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ جونہی یوٹیلٹی سٹوروں کو سامان کی سپلائی ہوتی ہے چند گھنٹوں بعد ہی سامان کریانہ شاپس پر فروخت کر دیا جاتا ہے اور یوٹیلٹی سٹور پر جانے والے اکثر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ہیں چونکہ سامان شارٹ کا بہانہ کر کے لاکھوں کی دیہاڑیاں لگانے والے یوٹیلٹی سٹور ملازمین انتہائی خوبصورتی سے جیب تراشوں کی طرح ہاتھوں کی صفائی دکھاتے آئے ہیں اور جب تک کوئی سخت سزاؤں پر مشتمل قانون سازی نہیں ہوتی اسی طرح غریبوں مزدوروں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننے کی کوشش کرتا رہے گا۔۔مہنگائی کا جن ہے کہ بوتل سے باہر آنے کے بعد بوتل کے اندر جانے کو ہی تیار نہیں ہے۔غریبوں کی باں۔باں۔چاں۔چاں۔ہمیشہ سے چلتی آئی ہے جو لگتا ہے چلتی جائے گی کیونکہ جو حکومتیں سنجیدہ ہوتی ہیں وہ آڈر دیکر سو نہیں جاتیں بلکہ اس پر نظر رکھی جاتی ہے جو کہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
کیونکہ جب تک ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کو یہ یقین نہیں ہو جائے گا کہ اگر ہمارے ضلع میں روزانہ نکلنے والی ریٹ لسٹ سے زائد سبزیاں۔فروٹ۔گھی۔دالیں۔مرچ۔مصالے۔چاول سمیت دیگر اشیاء فروخت ہوئیں تو سزا ہمیں ملے گی تب تک ممکن ہی نہیں کہ مہنگائی کا جن میاں قابو میں کیا جا سکے گا۔غریب یونہی غربت کی چکی پستے ہوئے باں باں کرتا رہے گا افسر شاہی سبزمنڈیوں سے تازہ سبزی۔فروٹ منڈیوں سے وافر مقدار میں فروٹ۔دونمبر کوکا کولا؟۔پیپسی کولا۔سیون اپ۔سپرائیٹ سمیت تمام مشروب پیتا اور مرتا رہے گی۔بے حسی کا عالم ہے کہ ان افسران کی ناک کے نیچے ۔دونمبر اشیائے خوردونوش۔مشروبات۔دودھ۔گھی۔آئل۔وغیرہ تیار ہوتا ہے ان کے پرائیویٹ چمچے سب کچھ جانتے ہوئے ماہانہ حصہ پتی لیکر کاروائی نہیں ہونے دیتے ۔جناب وزیر اعظم پاکستان عمران خان آپ نے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے اچھی منصوبہ بندی کی ہو گی غریبوں کو پہلی بار کسی سیاستدان کی شمولیت کے بغیر بارہ بارہ ہزار روپے دے جا رہے ہیں منصوبہ قابل تعریف ہے مگر پڑتال کی گئی لسٹوں میں ایسے بھی لوگ شامل ہیں جو مالدار ہیں جبکہ سفید پوش طبقہ اپنے بھرم کے ٹوٹنے کا خوف دل میں لیکر فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور آج سب سے زیادہ ایسے لوگ مستحق ہیں۔جن خواتین کے نام آئے اور عمریں زیادہ ہیں انگوٹھوں کے نشانات نہیں آ رہے کسی کے بازو کٹے ہوئے ہیں اور بارہ کی لسٹ میں نام ہے وہ کس طرح یہ رقم لے سکتے ہیں ۔اسی طرح اگر وہ بارہ ہزار لے بھی لے مگر مہنگائی قابو میں نہ آئے تو آپکی ایفٹ اور خدمت بیکار جانے والی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں پر اجلاس بلائیں اور اس سے پہلے قانون سازی مکمل کی۔جائے جب بلایا جائے تو تمام تر ذمہ داری انہیں کے سر رکھی جائے کہ اگر آپ کسی ضلع۔تعصیل۔شہر۔اڈہ۔یا گاؤں میں ریٹ لسٹ سے زیادہ اشیائے خوردونوش فروخت ہونگی تو تمہاری چھٹی کروا دی جائے گی اور منافع میں سخت سزا بھی ملےگی شاید تب ان لوگوں کو ہوش آئے اور افسر شاہی کے نشہ میں چور یہ ملازمین عوام کے خون پسینہ سے کمائے ٹیکسوں پر عیش کرنے والے یقینا مہنگائی پر قابو ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں۔۔اور جب آپکی طرف سے مدد اور دوکانوں سے ریلیف ملنا شروع ہو گا تو عوام گھروں میں بیٹھ کر کرونا سے جنگ لڑ سکے گی ورنہ بھوک سے مارے لوگ سڑکوں پر ملتے رہیں گے اور کرونا کے پھلاؤ کا سبب بنتے رہیں گے۔۔اگر یہ نہ ہوا تو تم چیختے رہو سمجھاتے رہو۔۔عوام چیں چیں باں باں کرتی رہے گی اور ہڈی کی چس لینے والے ذخیزہ اندوزوں کے ہاتھوں لٹتی رہے گی۔پھڑا جائے گا تو چھوٹا دوکاندار موجیں لیتا۔لوٹتا رہے گا تو لمبے ہاتھوں والا ذخیرہ اندوز ؟ آنے والے چند دنوں میں ماہ رمضان کا پہلا روزہ ہو گا ہر بار کی طرح ایک بار پھر ذخیرہ اندوز پچھلے دنوں سے زیادہ سرگرم نظر آئیں گے اور عوام کی کھال اتارنے کے لیے پوری منصوبہ بندی سے چینی۔گھی۔سمیت کھانے پینے کی چیزوں کو پہلے منظر سے آؤٹ کیا جائے اور پھر روزہ دار وں کی کھال تک اتار لی جائے گی۔لعنت کے مارے ذخیرہ اندوزوں کو شاید موت کا ڈر ہی نہیں ہوتا وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں انکو نکیل ڈالنے کے لیے جب تک ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور اے سی صاحبان اپنی ڈیوٹی کو ڈیوٹی نہ سمجھیں گے تب تک نہ ذخیرہ اندوزوی ختم ہو گی اور نہ ملک و قوم کو لوٹنے ریلف ملے گا۔۔تے فیر ریلف کیسا۔۔۔چاں چاں تے بیں بیں کیسی ؟ مرو غریبوں ریلف دیاں امیداں تے آساں لا لے۔۔۔۔