اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) شوگر انڈسٹری کی مدد کرنے پر منگل کو شوگر کمیشن کی جانب سے ہٹائے گئے ایف آئی اے عہدیدار نے بدھ کو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو تفصیلی خط لکھا ہے جس سے کمیشن کے ہی کام کرنے کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
افسر نے خود پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات کے حوالے سے ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے کردار پر نظر ڈالنے کی کوشش کی وجہ سے ان اداروں سے وابستہ کمیشن ارکان ناراض ہوگئے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے ماضی کے کام اور ساکھ کے باوجود میڈیا میں گمراہ کن معلومات پھیلا کر انہیں بدنام کیا گیا۔
وزارت داخلہ کے ایک ذریعے نے دی نیوز کو اس خط کی نقل فراہم کی ہے۔
خط میں افسر کا کہنا ہے کہ کمیشن کے قیام کا مقصد وہ حقائق اور اصل وجوہات سامنے لانا تھا جن کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی ان کمپنیوں کی جانب سے اپنی مصنوعات کے متعلق دستاویزات کی تیاری / خریداری / فروخت کے متعلق حقائق و وجوہات سامنے لانا تھا۔
لہٰذا انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کے چیف آف اسٹاف کو مختلف تاریخوں پر خط لکھا، اس اقدام نے کمیشن کے دیگر ارکان کو ناراض کر دیا اور انہیں ایسا لگا کہ یہ شوگر ملوں کو رعایت دینے کے مترادف ہے۔
افسر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایف بی آر اور ایس بی پی سے افغانستان کو کی جانے والی برآمد کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی، افغانستان کو ہونے والی برآمد میں جعلسازی کے متعلق خدشات کی نشاندہی کی اور درخواست کی کہ جو معلومات فراہم نہیں کی وہ فراہم کی جائیں اور یہ بھی کہ زیر دستخطی نے کوئی معلومات نہیں چھپائی بلکہ متعلقہ محکموں نے اب تک یہ معلومات فراہم نہیں کیں۔
انہوں نے کہا، اس کے علاوہ انہوں نے کمپنی کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور جامعہ (اسپریڈ) شیٹ تیار کی جس میں افغانستان کو کی جانے والی تمام برآمد، پاکستانی ٹرکوں کی تعداد، ڈرائیور کا نام اور پاکستان کے کسٹم دستاویزات کے مطابق افغان ٹرکوں کی معلومات شامل تھیں لیکن مطلوبہ معلومات اب تک نہیں ملیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب ٹیم نے گھوٹکی میں سائٹ کا دورہ کیا تو یہ بات علم میں آئی کہ ایف بی آر نے شوگر ملوں کا کوئی ریکارڈ نہیں بنایا، لہٰذا انہوں نے ایف بی آر کو خط لکھا جس سے ایف بی آر والے ناراض ہوگئے جبکہ ڈاکٹر بشیر اللہ جو کمیشن کے رکن تھے، نے واٹس ایپ پیغام میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ایف بی آر والوں نے اس خط کو اچھے تاثر سے نہیں دیکھا۔‘‘
انہوں مزید بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر بشیر اللہ کو وضاحت دی کہ خط کا مقصد کسی محکمے کو دکھ پہنچانا نہیں تھا۔
’’بدقسمتی سے نتیجے تک پہنچنے کے لیے میری تمام منصفانہ کوششوں اور سفارشات کو بلا جواز انداز سے کمیشن ارکان اور چیئرمین نے غلط سمجھا’’۔
افسر نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے ایس ای سی پی سے کمیشن کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے انہیں ایک خط لکھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ایس ای سی پی نے شوگر انڈسٹری کے معاملات پر ضابطے کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے لیکن کمیشن سے اب تک جواب کا انتظار ہے۔
ایس ای سی پی کے کردار کی معلومات کے حصول کے لیے لکھے جانے والے اس خط کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ افسر کے مطابق کل (منگل کو) شام 5؍ بجکر 31؍ منٹ پر انہیں ڈی جی ایف آئی اے نے فون کیا اور جب وہ ان کے روبرو پیش ہوئے تو وہاں کمیشن کے دو ارکان احمد کمال اور گوہر نفیس بھی موجود تھے۔
خط کے مطابق، اس ملاقات کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے افسر کو بتایا کہ ان کے پاس افسر کیخلاف آئی بی کی رپورٹ موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس شوگر مل کی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں جس کے فارنسک آڈٹ کی ذمہ داری انہیں دی گئی تھی۔
ڈی جی ایف آئی اے نے انہیں یہ بھی بتایا کہ انہوں نے شوگر مل کی فارنسک آڈٹ کے دوران مدد کی۔ افسر کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے مل اسٹاف کے ساتھ روابط ہیں اور وہ ان سے ملاقات اور مدد کرتے رہے ہیں۔
خط میں افسر نے ڈی جی کو بتایا، ’’اس پر میں نے دوٹوک انداز سے ان الزامات کی تردید کی اور انہیں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے ایڈمن مینیجر کے ساتھ روابط ہیں کیونکہ میں کمپنی آفس دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر جاتا تھا تاکہ آڈٹ کیا جا سکے اور ضروری معلومات جمع کی جا سکے جبکہ میری کمپنی کے سیلز انچارج کے ساتھ ایک ہی ملاقات ہوئی ہے وہ بھی اس وقت جب میں ان کا بیان ریکارڈ کرنے گیا تھا۔‘‘
افسر نے اس کے بعد ڈی جی ایف آئی سے کہا کہ اگر انہوں نے کمپنی کے مالک یا ملازمین سے کوئی متنازع بات چیت یا ملاقات کی ہے تو اس کا ٹیلی فونک ثبوت دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی ٹرانسکرپٹ یا ریکارڈنگ نہیں دی گئی۔ خط کے مطابق، افسر نے ڈی جی ایف آئی اے کو بتایا کہ انہوں نے پوری لگن کے ساتھ کام کیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں سخت پولن الرجی ہے اور ساتھ ہی لاجسٹک مسائل کا بھی سامنا رہا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اٹیچمنٹ اسٹاف کی درخواست کی تھی لیکن تین دن تک وہ بھی نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے فیکٹری سائٹ اور شوگر مل کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا، کمیشن ایجنٹس، ڈیلرز اور کمپنی سے تمام مطلوبہ دستاویزات اور اعداد و شمار جمع کیے، اور اہم رجسٹر وغیرہ قبضے میں لیے کیونکہ سچ سامنے لانے کے لیے یہ تمام اقدامات ضروری تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار تیار کیے اور ساتھ ہی کمیشن کو بریفنگ دی۔ دستاویزات اور شواہد جمع کرنے میں تاخیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے فارنسک میں تاخیر ضرور ہوئی تھی لیکن اس کی وجہ بھی افسر خود نہیں کیونکہ وہ ٹیم کراچی سے کام کر رہی تھی جبکہ افسر نے ڈی جی دوٹوک الفاظ میں فارنسک ٹیم میں شامل کیے گئے کچھ سائبر کرائم افسران کی ساکھ کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔
ان کی جانب سے مطلوبہ معلومات فراہم نہ کرنے کے الزام پر افسر نے کہا کہ یہ بے بنیاد الزام اور حقائق کے منافی بات ہے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ انہوں نے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کیں اور کمیشن کو فراہم کیں۔